لاہور میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی راہداریوں میں بچوں کی ہنسی کی آوازیں گونجتی ہیں، جہاں بچے دن کا بیشتر وقت پڑھائی، کھیل اور مستقبل کے خواب دیکھنے میں گزارتے ہیں۔
انہی بچوں میں 17 سالہ مہوش اسلم بھی شامل ہے، جو ایک نرم گو اور پُرامید لڑکی ہے، لیکن تنہائی کے لمحات میں وہ اعتراف کرتی ہے کہ اسے شدید بے چینی محسوس ہوتی ہے۔ صرف چند مہینے بعد، مہوش کی عمر 18 سال ہو جائے گی، جس کے بعد اُسے بیورو سے رخصت لینا ہو گا کیونکہ وہ قانونی طور پر بالغ سمجھی جائے گی۔ نہ خاندان، نہ گھر، اور نہ ہی آگے کا کوئی واضح راستہ — یہ اچانک بدلتی ہوئی زندگی کی حقیقت ان تمام لڑکیوں کو خوفزدہ کرتی ہے جو اس وقت بیورو میں رہ رہی ہیں۔
مہوش کے ساتھ رہائش پذیر رمشہ عامر اور نسرین مقبول بھی انہی خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔ دونوں اکثر رات بھر جاگتی رہتی ہیں، سوچتی ہیں کہ شیلٹر سے باہر کی زندگی کیسی ہو گی۔ جہاں یہ ادارہ انہیں خوراک، تعلیم، اور پناہ فراہم کرتا ہے، وہیں قانون کے مطابق اٹھارہ برس کی عمر کے بعد وہ اس امداد کے دائرے سے باہر ہو جاتی ہیں۔ بیورو چونکہ بچوں کے تحفظ کے قوانین کے تحت کام کرتا ہے، اس لیے بالغ ہونے کے بعد ان بچوں کو وہاں سے چلے جانا ہوتا ہے — ایک ایسا مرحلہ جو کسی بھی طرح آسان نہیں۔
پاکستان میں یوتھ ٹرانزیشن سینٹرز کی عدم موجودگی کی وجہ سے کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں جو ان نوجوانوں کو بالغ ہونے کے بعد محفوظ رہائش، تعلیم کا تسلسل یا روزگار فراہم کر سکے۔ نتیجتاً، بیشتر بچوں کے لیے ادارہ جاتی معاونت کا اچانک اختتام ایک ایسی کھائی میں دھکیلنے کے مترادف ہوتا ہے جس کے نیچے کوئی حفاظتی جال نہیں ہوتا۔ زندگی گزارنے کی مہارتوں، سماجی روابط اور معاشی وسائل کی عدم موجودگی انہیں بے گھری، غیر رسمی مزدوری یا استحصالی حالات میں دھکیل سکتی ہے۔
سرچ فار جسٹس کے ڈائریکٹر افتخار مبارک کا کہنا ہے کہ یہ خالی جگہ صرف پالیسی کی خامی نہیں بلکہ ایک انسانی غفلت ہے۔ “اگرچہ قانون انہیں 18 سال کی عمر میں بالغ قرار دیتا ہے، لیکن یہ نوجوان جذباتی اور معاشی طور پر ابھی بھی امداد کے محتاج ہوتے ہیں۔ چند کامیاب کہانیاں ضرور موجود ہیں، لیکن وہ عمومی نہیں بلکہ استثنائی مثالیں ہیں،” افتخار مبارک نے کہا۔
محمد زبیر اور نازیہ اشرف، دونوں نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں پرورش پائی اور وہیں ایک دوسرے کے قریب آئے۔ ادارے کی مدد سے انہوں نے شادی کی، وہیں ملازمت حاصل کی اور ایک مشترکہ زندگی کی بنیاد رکھی۔ دیگر نوجوان جیسے حسن، سنول اور مبارک اسلم کو ووکیشنل ٹریننگ ملی اور اب وہ نجی اداروں میں برسر روزگار ہیں۔ کچھ نجی ادارے، جیسے ایس اوایس ویلیج، اٹھارہ سال کی عمر کے بعد بھی نوجوانوں کی معاونت جاری رکھتے ہیں۔
چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن اور پنجاب اسمبلی کی رکن سارہ احمد کا کہنا ہے کہ ادارے کی پوری کوشش ہے کہ کوئی بچہ اُس وقت تک بیورو سے نہ نکالا جائے جب تک وہ معاشی طور پر خودمختار نہ ہو جائے، انہوں نے کہا ہم بچوں کو تعلیم اور ہنر سکھا کر اس قابل بنا رہے ہیں کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔سارہ احمد کے مطابق نوجوانوں کو ملازمت کے حصول کے لیے بھی رہنمائی اور معاونت فراہم کی جاتی ہے
ایس اوایس ویلیج کی ڈائریکٹر الماس بٹ کے مطابق، وہاں نوجوان 23 سال کی عمر تک رہ سکتے ہیں۔ “اس دوران انہیں ملازمت کی تلاش میں مدد، کیریئر کونسلنگ، اور جذباتی رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ لڑکوں کو یوتھ ہاسٹلز میں منتقل کر دیا جاتا ہے جبکہ لڑکیاں ویلیج میں ہی رہتی ہیں جب تک کہ وہ مالی طور پر خودمختار یا شادی شدہ نہ ہو جائیں،” الماس بٹ نے بتایا۔
یہ کوششیں اگرچہ مؤثر ہیں لیکن محدود پیمانے اور وسائل کی کمی کے باعث سب بچوں تک نہیں پہنچ پاتیں۔ ریاستی ادارے اکثر ان خدمات کو فراہم کرنے کے قابل یا مجاز نہیں ہوتے۔ ایسی صورتحال میں نجی ادارے اُن خوش نصیب بچوں کے لیے امید کی کرن بنے ہوئے ہیں جو وہاں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔
برطانیہ، کینیڈا، اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک میں نوجوانوں کی ابتدائی بالغ زندگی کے لیے منظم پروگرام موجود ہیں جن میں ہاسٹل طرز کی رہائش، مالی امداد، ہنر کی تربیت اور نفسیاتی مشاورت شامل ہوتی ہے۔ یہ اقدامات غربت، جرائم، اور ذہنی مسائل کے امکانات کو کم کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس طرح کے ڈھانچے کی غیر موجودگی ہزاروں بچوں کی صلاحیت کو ضائع کر سکتی ہے جو ہر سال ادارہ جاتی نگہداشت سے نکلتے ہیں۔ مہوش اور رمشہ دونوں میں ہنر، ذہانت اور حوصلہ موجود ہے، لیکن وہ اپنی منزل تک پہنچ پائیں گی یا نہیں، یہ سوال تاحال تشویش ناک ہے۔
سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر پروگرامز، مزمل یار کے مطابق، محکمہ ایسے منصوبوں پر کام کر رہا ہے جن کے تحت شیلٹر ہومز سے نکلنے والے 18 سال سے زائد عمر کے نوجوانوں کو رہائش، روزگار کی معاونت اور تعلیم کا تسلسل فراہم کیا جائے گا۔