سپریم کورٹ آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس پر فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ کے 3 ججز نے ججز کی اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کو آئینی قرار دیا۔
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے ججز ٹرانسفر کیس پر فیصلہ سنایا، سپریم کورٹ نے ججز کے ٹرانسفر کے خلاف درخواستیں نمٹا دیں۔
سپریم کورٹ نے تین دو کی اکثریت سے ججز ٹرانسفر کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔
جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال اور جسٹس صلاح الدین پنہور نے ٹرانسفر کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شکیل احمد نے ٹرانسفر کے خلاف فیصلہ دیا۔
عدالت نے اکثریتی فیصلے میں کہا ہے کہ جسٹس سردار سرفراز ڈوگر قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد کے طور پر کام کرتے رہیں گے، تبادلہ مستقل ہے یا عارضی ہے، یہ معاملہ صدر مملکت کو واپس بھجوایا جاتا ہے، تبادلہ کیے جانے والے ججوں کی سینیارٹی کا معاملہ بھی صدر مملکت کو بھجواتے ہیں۔
اختلافی فیصلہ دینے والے ججز نے اشعار بھی لکھے
اختلافی فیصلہ جسٹس نعیم اختر افغان نے پڑھ کر سنایا، اختلافی فیصلہ کے اختتام پر جسٹس نعیم اختر افغان نے 2 اشعار بھی پڑھے۔
اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تبادلہ کے خلاف درخواستیں منظور کی جاتی ہیں، ججز تبادلہ کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے، صدر مملکت کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کا اختیار نہیں، درخواست گزاروں کا کہنا ہے عدلیہ میں مداخلت کا نوٹس لینے کی سزا دی گئی۔
کیس کا پس منظر
جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس محمد آصف، جسٹس خادم حسین سومرو کا اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر ہوا تھا، تین ججز کی ٹرانسفر کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔
ٹرانسفر اور سینیارٹی کے خلاف جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس بابر ستار نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ ٹرانسفر اور سینیارٹی کے خلاف جسٹس طارق جہانگیری نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والوں میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی شامل ہیں۔
ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کے خلاف بانی پی ٹی آئی اور کراچی بار نے بھی درخواستیں دائر کی تھیں۔
ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کی پہلی سماعت 17 اپریل کو ہوئی، اس کیس میں کُل 19 سماعتیں ہوئیں جبکہ سپریم کورٹ میں 20 فروری کو درخواستیں دائر ہوئی تھیں۔