28 C
Lahore
Wednesday, June 18, 2025
ہومغزہ لہو لہوکارآمد تجویز - ایکسپریس اردو

کارآمد تجویز – ایکسپریس اردو


آپ مانیں یا نہ مانیں، یقین کریں یا نہ کریں لیکن آج سے ہم نے پکا پکا ارادہ کرلیا ہے کہ موصوفہ معروفہ کے بارے میں اپنا منہ بُرا بُرا بالکل نہیں کریں گے اور نہ اس کے سچے سچے بیانات پر پیڑے پیڑے شک کریں گے۔اور یہ تو بالکل نہیں کہیں گے کہ اس کے مسلسل بے محابا، لگاتار، بلا ناغہ اور بے بریک بیانات پڑھ کر لوگوں کو ابکائیاں آنے لگی ہیں۔بلکہ یہ کہیں گے لوگ صبح اٹھتے ہی دوڑ دوڑ کر اخباری ایجنسیوں اور اسٹالوں کے سامنے قطاریں باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں تاکہ سب سے پہلے ان کا بیان پڑھ کر دل وجان کو گل و گلزار اور عطربار کرسکیں

کوئی جھنکار ہے، نغمہ ہے، صدا ہے، کیا ہے

تو کرن ہے کہ کلی ہے کہ صبا ہے ،کیا ہے

نام ہونٹوں پہ ترا آئے تو راحت سی ملے

تو تسلی ہے، دلاسہ ہے ،دعا ہے، کیا ہے

وجہ اس تبدیلی اور انقلاب کی ہے کہ’’موصوفہ‘‘ نے اب کے جو بیان دیا ہے، وہ ہمیں اتنا پسند آیا ہے، اتنا پسند آیا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اسے تعویز بناکر چاندی میں لپیٹ کر گلے کی زینت بنائیں اور دنیا کے سارے پینٹروں اور لکھاریوں کو لگادیں کہ ملک میں ایسی کوئی جگہ نظر نہیں آنی چاہیے جس پر یہ تجویز مشتہر نہ ہو جو اس نے اپنے بیان میں دی ہے۔اس نے اس تجویز کو بھائی کے ساتھ مخصوص کیا ہے لیکن ہم اس بے مثل و مثال ،سراسر جمال وکمال تجویز کو ’’عمومی‘‘ کرکے سارے ملک پر منطبق کرنا چاہتے ہیں، انھوں نے فرمایا ہے کہ ان تینوں ’’شریفوں‘‘ کا پولی گراف ٹیسٹ کیا جائے۔واہ جی واہ

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

بڑا زبردست اور انقلابی آئیڈیا ہے۔ہم تو اسے سیاستدان نہیں سمجھتے تھے اور وہ زبردست موجد اور سائنس دان ہیں۔ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔ویسے ذہانت کسی کی میراث نہیں ہے‘ اسی طرح فطانت بھی خداداد ہوتی ہے۔ لہٰذا اس آئیڈیا پر اسے کم ازکم نوبل نہیں تو گلوبل ایوارڈ تو دینا ہی چاہیے بلکہ اگر دونوں یا کوئی تیسرا ایوارڈ یا پرائز ہو تو وہ بھی دینا چاہیے ۔

ہم نے پولی گراف ٹیسٹ تو لائیوشکل میں نہیں دیکھا ہے لیکن فلموں اور ڈراموں میں دیکھا ہے‘اس میں ایسی مشین یا آلہ دکھایا جاتا ہے  جو آدمی کے جھوٹ بولنے پر چیخ پڑتا ہے‘یوں وہ شخص حیران اور پریشان ہو جاتا ہے جس سے باآسانی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ سچ نہیں بلکہ جھوٹ ہے۔ بلکہ سنا ہے کہ اب تو اسے بھی مختصر کرکے’’ ڈیڈیکٹر‘‘ کی طرح ’’لائی ڈیڈیکٹر ‘‘ یعنی جھوٹ پکڑنے والے آلے کی شکل دی گئی ہے۔یہ ’’لائی ڈیڈیکٹر‘‘ کہیں بھی فٹ کر کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے ‘یہ ایسا آلہ ہے جوکسی بھی زیر تفتیش آدمی کے جھوٹ بولنے پر زور زور سے چلانے لگتا ہے، لائی لائی لائی یعنی جھوٹ، جھوٹ ۔۔۔۔یوں سچ کا پتہ چل جاتا ہے۔

بڑا مزا آئے گا جب کوئی لیڈر جلسے میں بڑے جوش و ولولے سے تقریر کررہا ہو اور اس کے گلے میں لائیو ڈیڈیکٹر ہو‘جیسے ہی وہ اپنے مخالفوں پر کوئی جھوٹا الزام لگائے یا جھوٹا وعدہ یا دعوی کرے تو اس کے گلے میں لٹکا ہوا لائی ڈیڈیکٹر فوراً چیخ پڑے کہ جھوٹ ہے جھوٹ ہے۔

اس آلے کوسینیٹ‘قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی استعمال کیا جاسکے گا اور عدالتوں میں، خاص طور پر حلف اٹھاتے وقت۔ اب تو لوگ کسی مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھاتے ہیں لیکن کتاب بچاری تو گونگی بہری ہوتی ہے، اس لیے لوگ اس پر ہاتھ رکھ کر دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں لیکن اس کی جگہ اگر لائیو ڈیڈیکٹر رکھ کر حلف اٹھوایا جائے تو یقین کریں کہ اتنے سائرن بجیں گے کہ حلف بچارا ناخلف ہوکر رہ جائے گا۔صرف اتنی اختیاط کرنا ہوگی کہ ’’بیلک اینڈ وائٹس ‘‘ کو اس سے ذرا دور رہنا ہوگا یا ربڑ کے دستانے پہننا ہوں گے۔

اسمبلیوں میں تھوڑی سی پرابلم پیش آسکتی ہے کیونکہ منتخب نمایندوں سوری، شہنشاہوں کااستحقاق بہت ہی نازک ،چھوئی موئی یعنی ٹچ می ناٹ قسم کا ہوتا ہے، ہوا کے جھونکے سے بھی مجروح ہوسکتا ہے لیکن اس کا حل بھی کسی نہ کسی طرح نکل آئے گا، مجروح استحقاق والوں کو مرہم پٹی کے لیے دو چار ملازمین یا پلاٹ وغیرہ دیے جاسکتے ہیں۔بلکہ اس مفید، زبردست اور ملٹی پرپز آلے کی اور بھی کئی شکلیں اور استعمالات ہوسکتے ہیں مثلاً یہ جو بہت سارے آلات کو ترقی دے کر کچھ سے کچھ کردیا گیا، ایک چھوٹے سے موبائل میں ریڈیو، ٹیلی وژن، گھڑی،کیمرے اور نہ جانے کیا کیا مرتکز کیا گیا ہے ،ایک بٹن کے برابر ’’چپ‘‘ میں نہ جانے کیا کیا الائیں بلائیں بند کی گئی ہیں۔

ایک لیڈر میں نہ جانے کتنے ڈاکو، لیٹرے، نوسرباز ،جیب کترے ، عیاش، بدمعاش، فحاش اور اوباش بٹھائے گئے ہوں گے ، اسی طرح اس ’’ لائی ڈیکٹر ڈیواس ‘‘(جھوٹ پکڑے والا پرزہ ) میں بھی کمی بیشی کرکے ہزار شکلیں دی جاسکتی ہیں۔اسے مائیک یا سپکر میں چسپاں کیا جاسکتا ہے اور جب بھی کوئی لیڈر،وزیر، مشیر یا معاون’’جھوٹ‘‘ بولے، اس کا ساونڈ بند ہوجائے،وہ ہونٹ ہلاتا رہے گا۔ اور لوگ ’’نہ سن‘‘کر محفوظ رہیں گے۔بلکہ اسے مزید ڈویلپ کر چشمے یعنی عینک میں بھی فٹ کیا جاسکتا ہے اور لوگ جب بھی اسے پہن کر اخبار پڑھیں گے اور کسی بڑے یا چھوٹے یا درمیانے کے بیان پر نظر پڑے تو ’’تاریک‘‘ ہوجایا کرے ،کوئی کہہ سکتا ہے، اخبارات میں تومعاونین و مشیرین خصوصی کے بیان بھی ہوتے ہیں ۔

ویسے پاکستان میں ایسے آلے یا چپ کی بہت زیادہ ضرورت ہے‘ آج کل پارلیمنٹ کے اجلاس اور اس میں ہونے والی تقاریر لائیو دکھائی جاتی ہیں‘سیاسی جلسوں کی کوریج بھی لائیو ہوتی ہے۔ لیڈروں کی تقریریں بھی لائیو چلتی ہیں۔ اب تو اعلیٰ عدالتوں کی کارروائی بھی لائیو دکھائی جاتی ہے۔اب اگر جھوٹ پکڑنے والے آلے یا لائی ڈیڈیکٹر بھی وہاں موجود ہوں تو بہت کچھ واضح ہو جائے گا ۔بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ پاکستان کے زیادہ تر مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے کیونکہ ارباب اختیار اور کار خاص کم از کم لائیو آ کر جھوٹ بولنا بند کر دیں گے کیونکہ انھیں معلوم ہو گا کہ ان کے گلے میں ایسی چپ ڈال دی گئی ہے کہ جیسے ہی جھوٹ بولا تو وہ چلانا شروع کر دے گی۔ ہم نے تو اپنی طرف سے تجویز دے دی ہے ‘ہمیں تو یہ بڑی کارآمد لگتی ہے لیکن پتہ نہیں انھیں بھی پسند آتی ہے کہ نہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات