32 C
Lahore
Monday, June 16, 2025
ہومغزہ لہو لہوکیا ایران سرخرو ہوگا؟ - ایکسپریس اردو

کیا ایران سرخرو ہوگا؟ – ایکسپریس اردو


           ایران پر حملے کے مضمرات کو سمجھنا اہم ہے لیکن اس حملے کے بعد  ایک سوال اس سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ کہ لمحہ موجود میں وہ کیا حکمت عملی ہے جو کسی قوم کی بقا کی ضامن بن سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے بہتر ہو گا کہ اپنے عہد کے چند سلگتے ہوئے خطوں پر نگاہ ڈال لی جائے۔ کشمیر اور افغانستان بہت دکھی ہیں لیکن فلسطین کا دکھ سوا ہے۔ پوری مسلم دنیا ہی نہیں دنیا بھر کے باضمیر لوگ بھی اس پر دکھی اور پریشان ہیں۔ فلسطین کی صورت حال سمجھ میں آ نہیں سکتی اگر مشرق وسطی کے منظر نامے کو غیر جذباتی انداز میں سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے۔

            اس ضمن میں ہمارے سامنے دو موزوں ترین مثالیں ہیں: حماس اور حزب اللہ۔ اِس منظر نامے میں حوثی باغی بھی شامل ہیں اور گزشتہ چند برسوں کے دوران میں ان کی سرگرمیوں سے بہت پیچیدگی بھی پیدا ہوئی ہے۔ ایران پر حالیہ اسرائیلی حملے میں یمن کی صورت حال نے بھی محرک کا کردار ادا کیا ہو گا ۔

            حماس کیا ہیں اور وہ کس مقصد کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں؟ یہ سوال کچھ ایسا مشکل نہیں۔ حماس کا ظہور ہمارے نسل کے عین سامنے اس وقت ہوا جب یاسر عرفات اور ان کی الفتح گوریلا جنگ کو آزمانے کے بعد بات چیت کی میز اور سیاست کی بساط پربیٹھ گئی۔ الفتح نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے جو جگہ خالی کی تھی، حماس نے اسے پر کیا۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ الفتح تھک چکی ہے اور  مصلحت کوش ہو چکی ہے جب کہ اس کی جگہ لینے والے مصلحت کوش نہیں بلند حوصلہ ہیں۔ الفتح نے غیرت پر جس طرح سمجھوتہ کیا ہے، ان سے ایسی توقع نہیں۔ سچ یہ ہے کہ حماس اس معیار پر پورا اتری لیکن کیا منزل مقصود تک پہنچ بھی پائی، یہ سوال اہم ہے اور اس سوال کا جواب ہی طے کرے گا کہ ہمارے اور دکھوں کا اصل سبب کیا ہے؟

            اس سوال کا جواب مل نہیں سکتا اگر نائن الیون کے بعد کی دنیا کو سمجھ نہ لیا جائے۔ نائن الیون کے حملے کوئی اخلاقی اور تزویراتی جواز رکھتے تھے یا نہیں، یہ بحث اہم ہے لیکن اس سے زیادہ اہم وہ ماحول ہے جو ان حملوں کے بعد پیدا ہوا۔ نائن الیون سے پہلے اور بعد کی دنیا میں ایک واضح فرق ہے۔ القاعدہ نے امریکا پر حملہ کیا تو اس کے بعد حق خود ارادی کے لیے مسلح جدوجہد کو جرم بنا دیا گیا۔ یہ ممکن نہ رہا کہ نائن الیون سے پہلے کی طرح حریت پسند مسلح جدوجہد جاری رکھ سکیں۔

            کیا لائن الیون کے بعد کی دنیا کے لیے بنایا گیا یہ ضابطہ قابل قبول ہے؟ ہرگز نہیں لیکن ایک مجبوری ہے۔ یہ مجبوری اقتصادی اور عسکری صورت حال نے پیدا کی ہے۔ مسلم دنیا اگر اپنی معیشت اور فوجی قوت کے بل بوتے پر اس ‘ نیونارمل’ کو تبدیل کرنے کی قوت رکھتی  تویقینا اپنی قوت سے اسے تاریخ کے کچرا خانے میں پھینک دیتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ ایسا نہیں ہو سکا تو تو ناگزیر تھا کہ نئے حالات کے مطابق نئی حکمت عملی اختیار کی جاتی۔

            بدلے ہوئے حالات میں مسلم دنیا نے اپنے فہم اور بساط کی حد تک حکمت عملی میں تبدیلی کی جس کے اثرات پاکستان تا سعودی عرب دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں علمائے کرام کے دستخطوں سے وجود میں آنے والا فتوی’ پیغام پاکستان’ ہو یا سعود ی عرب کا وژن 2030ئ، یہ سب بدلی ہوئی حکمت عملی کے مظاہر ہیں۔

            پاکستان جہاد افغانستان کے زمانے یعنی 1979 ء سے حالت جنگ میں تھا۔ گزشثہ چالیس برسوں کے دوران میں افغانستان میں عسکریت کبھی دھیمی پڑی اور کبھی اس کی آنچ بڑھ گئی، اس کے ساتھ ہی ساتھ کشمیر کا محاذ بھی گرم ہو گیا۔ یوں پاکستان مکمل طور پر حالت جنگ میں چلا گیا۔ یہ حکمت عملی سود مند رہی یا نہیں، اس بھی اگرچہ غور و خوض ضروری تھا لیکن اس سے پہلے نائن الیون کی وجہ سے دنیا بدل گئی۔ یہی تبدیلی تھی جس کے پیش نظر پوری مسلم دنیا نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ پاکستان نے پہلی بار سرکاری طور پر اعلان کیا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی سرگرمیاں جہاد نہیں، فساد فی الارض ہیں۔ یہ عین وہی مؤقف ہے جو 1948 ء میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے اختیار کیا تھا۔ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات وغیرہ میں اصلاحات اور تعلیم کے اعلیٰ ترین مراکز کا قیام بھی اسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلم دنیا کو نئی دنیا کے تقاضوں کے  سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ وہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق حق خود ارادیت کے حصول سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں کام یابی کے لیے لائحہ عمل تیار کر سکیں۔

            یہ حالات کی بہت بڑی کروٹ تھی۔ کام یابی کا راستہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق حکمت عملی تبدیل کرنے سے کھلتا ہے۔ مسلم دنیا نے ایسا ہی کیا لیکن اس میں ایک استثنا تھا۔ یہ استثنا ایران تھا جو دنیا کے بدل جانے کے باوجود نائن الیون سے پہلے کے ماحول میں سانس لیتا رہا۔

            1979 ء میں ایران میں رونما ہونے والا انقلاب انسانی تاریخ میں ایک نئی اور بڑی جست تھی جس نے مطلق العنانیت کو چیلنج ہی نہیں کیا ،اسے شکست سے بھی د وچار کیا۔ ایس وجہ سے مسلم دنیا کے ایک بڑے حصے میں اس کا خیر مقدم کیا گیا۔ یہ تبدیلی مسلم دنیا ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت کے لیے باعث رحمت ہو سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا کیوں کہ اس انقلاب کی مسلم دنیا میں برآمد کی خواہش اور کوششوں نے اس کے بارے میں خوش دلی کا خاتمہ کر دیا۔

            نائن الیون کے بعد مسلم دنیا حق خود ارادیت کی تحریکوں سمیت زندگی کے دیگر شعبوں میں جس تبدیلی کی ضرورت محسوس کر رہی تھی، ایران اسے محسوس کرنے میں ناکام رہا۔ حزب اللہ، حماس اور حوثی باغیوں کو وہ پراکسی کے طور پر استعمال کرتا رہا یا ان کی کسی نہ کسی طرح سے سرپرستی کر کے اس نے انھیں بدلے ہوئے حالات کے مطابق بدلنے نہیں دیا۔ گزشتہ برس اکتوبر میں حماس کے حملے ایران کی اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھے۔

            حماس کو فلسطین کی آزادی کے لیے لڑنے کا یقینا حق حاصل ہے لیکن اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وہ اپنے حملے کے ردعمل کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے یا نہیں۔ حالات نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس کی اہل نہیں تھی۔ یہی سبب تھا کہ اس کے حملے کے بعد نہ صرف اس کی قیادت کا صفایا ہو گیا بلکہ حزب اللہ سمیت مشرق وسطیٰ میں مزاحمت کی صلاحیت رکھنے والی تقریباً تمام حربی قوتوں کا صفایا کر دیا گیا جن کی حیثیت ایک ڈیٹرنس کی سی تھی۔ شام کو بھی تبدیل کر دیا گیا، اس کے بعد فطری طور پر ایران کی باری آنی تھی اور وہ آگئی۔ پاکستان بھی ان کا نشانہ تھا لیکن بدلے ہوئے پاکستان پر ایسی جارحیت ممکن نہ تھی لہٰذا اس مقصد کے لیے پہلگام واقعے کی آڑ میں بھارت کو استعمال کیا گیا۔ یہ کوشش اللہ کے فضل سے ناکام رہی۔

            یہ درست ہے کہ ایران نے حملے کے بعد سینکڑوں میزائل اسرائیل پر داغے ہیں لیکن تادم تحریر اطلاعات کے مطابق تین یا چار اسرائیلی ہلاک اور ساٹھ زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل نے ایران کی پوری عسکری قیادت کا صفایا کرنے کے علاوہ ایٹمی ری ایکٹر اور میزائل تیار کرنے والی فیسیلٹی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اسرائیل نے ایران کے اندر جگہ بنا کر اس پر حملے کیے ہیں۔ کسی ملک کے اندر ایسے اڈے طویل حکمت عملی کے نتیجے میں ہی بنائے جا سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایران کا دفاعی اور جاسوسی نظام اس کی اطلاع پانے میں ناکام رہا۔ یہ بہت بڑی ناکامی ہے۔ اس سے ریاست کی کمزوری ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ دشمن پر غالب آنے کی اس کی صلاحیت محدود ہے۔

            ایران کی یہ صورت حال اقبال کے الفاظ میں جرم ضعیفی کے مترادف ہے۔یہ ایران کا جرم ضعیفی ہی ہے کہ اب دشمن وہاں رجیم کی تبدیلی کے درپے ہو گئے ہیں۔ اسرائیل کا یہ کہنا توجہ طلب ہے کہ کہ وہ ایرانی عوام کے خلاف نہیں بلکہ(اسرائیل کے اپنے الفاظ میں ) ایران کے جابرانہ نظام کے خلاف ہے۔ اسی لیے نیتن یاہو نے ایرانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں مشورہ دیا ہے کہ اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا یہ بہترین وقت ہے۔ اسرائیل نے اپنے آپریشن کا نام ‘ رائزنگ لائین’ رکھا ہے۔ یہ بہت معنی خیز نام ہے۔ انقلاب سے قبل ایران کے جھنڈے میں شیر کی شبیہ ہوا کرتی تھی، اس آپریشن کا نام اسی مناسبت سے ہے اور اس کا مقصد ایران کی موجودہ حکومت کے مخالفین کو متحرک کرنا ہے۔

            مغرب میں ایرانی انقلاب کی بساط لپیٹ دینے کی آرزو بہت پرانی ہے۔ حالیہ واقعات بتاتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے جامع منصوبہ بندی کی گئی۔ ایران یقینا اس سے آگاہی رکھتا ہو گا لیکن ان منصوبوں کی جامعیت، ہلاکت آفرینی اور گہرے اثرات کا اندازہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایران میں اندر ہی اندر حکومت کے خلاف لاوا پکتا رہا ہے جن پر نوجوان خاتون مہسا امینی کے پر اسرار قتل جیسے واقعات تیل چھڑکتے رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ناگزیر تھا کہ حکمرانوں کا ہاتھ ناراض لوگوں کی نبض پر ہوتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ناراض لوگ دشمن کا تر نوالہ بن گئے اور انھوں نے اپنی ریاست کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دیا۔ اسرائیل ملک کے اندر سے ایران پر حملہ کرنے میں کام یاب ہوا ہے، ایسا مقامی لوگوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔ اندازے یہی ہیں کہ یہی ناراض لوگ اسرائیل کا دست و بازو بنے ہوں گے۔

    حرف آخر یہ کہ نائن الیون کے بعد بدلی ہوئی دنیا کو سمجھنے اور اس کے مطابق لائحہ عمل اختیار کرنے میں ناکام رہا، اس پر آنے والی تازہ افتاد اسی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ کیا ایران اس آزمائش میں سرخرو ہو گا؟ ہماری دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات