ساحر لدھیانوی کی شاعری کے متعلق کچھ بھی لکھنا قدرے مشکل ہے۔ اتنی جہتوں والا قادرالکلام انسان جس کے لکھے ہوئے الفاظ آج بھی آپ پر کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔ پڑھنے والے کو واقعی ایک سحر سا معلوم پڑتا ہے۔ مشرقی پنجاب کے شہر لدھیانہ کے علاقے کریم پورہ کے ایک گجر خاندان میں پیدا ہونے والا ’’بچہ‘‘ اوائل عمری میں کافی مصائب کا شکار رہا۔ والدہ‘ سردار بیگم اور والد کے درمیان شدید ان بن تھی۔ علیحدگی اور پھر طلاق سے‘ اولاد ہمیشہ متاثر ہوتی ہے۔
ساحر کے ساتھ بچپن میں یہی کچھ ہوا۔ تلخیوں اور محرومیوں سے آراستہ بچپن‘ زندگی کا تکلیف دہ حصہ تھا۔ یہ 1921 سے لے کر 1940 کا دورانیہ تھا۔ کریم پورہ‘ لدھیانہ کا حصہ تھا۔ وہیں ‘ ساحر‘ خالصہ ہائی اسکول اور پھر گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم رہا۔ دونوں درسگاہوں میں آج بھی اس کا نام‘ ایک سنہری پلیٹ پر کنداں ہے۔ شروع ہی سے شاعری‘ اس کی نس نس میں دوڑ رہی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ 1943میں وہ لاہور آ گیا۔
1945 میں اس نے ’’تلخیاں‘‘ مکمل کی ۔ یہ اردو شاعری میں اس کی پہلی سیڑھی تھی۔ شعروں پر مبنی یہ تصنیف ‘ پورے برصغیر میں مشہور ہو گئی ۔تمام لوگ‘ ساحر کی شاعری کے گرویدہ ہو گئے۔ ساحر کے خیالات‘ انسان دوستی ‘ محنت کشوں کے حقوق‘ مساوات اور انسانیت کے احترام پر مبنی تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اشتراکی خیالات کا مالک ہے۔ ساحر ‘ ایک جدید ذہن کا مالک تھا۔ اس طرح کے لوگ‘ کسی بھی حکومت کو پسند نہیں آتے ہیں۔ پاکستان بنا ‘ تو جلد ہی ساحر ‘ ہمارے ملک کے بادشاہوں کو کھٹکنے لگا۔ 1949 میں اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔
اس کو اتنا زچ کیا گیا کہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ ویسے ہمارے ملک میں حکمرانوں کو ایک منفی کام میں یدطولی حاصل ہے۔ اور وہ یہ کہ‘ ہر سوچنے اور سچ بولنے والے انسان کو خطرہ بلکہ دشمن سمجھا جاتا ہے۔ ساحر‘ پاکستان سے فرار ہو کر‘ دہلی اور پھر بمبئی چلا گیا۔ یہ ہجرت‘ اس کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ دقیانوسی مملکتوں سے جو بھی ‘ مجبوری میں نکلتا ہے۔ اگر صحیح سماج میں پہنچ جائے تو اس کے جوہر ‘حد درجہ تراشے جاتے ہیں۔ اس عظیم شاعر کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ بمبئی میں اس کی دوستی‘ مشہور زمانہ شاعر ‘گلزار اور افسانوں کے بادشاہ کرشن چندر سے مثالی رخ اختیار کر گئی۔ ساحر نے فلمی شاعری شروع کر دی۔’’آزادی کی راہ پر‘‘ وہ پہلی فلم تھی۔
جس کے لیے اس نے چار نغمے تحریر کیے۔ عجیب بات ہے کہ یہ فلم مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ 1951 میں ’’نوجوان‘‘ نام کی پکچر نے اسے کامیابی بخشی۔ ایس ڈی برمن نے ابتدائی طور پر اس سے کافی گانے نغمے تحریر کروائے۔ اسی برس میں ’’بازی‘‘ فلم بنی۔ اور یہ باکس آفس پر سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس میں ایس ڈی برمن نے ساحر کے لکھے ہوئے گیت استعمال کیے تھے۔ قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہو گئی۔ مگر برمن اور ساحر‘ 1957 تک ہی ایک دوسرے کے ساتھ چل سکے۔ معاہدہ کی کئی شقوں پر ساحر کے اختلاف نے یہ سنگت مکمل طور پر ختم کر ڈالی۔
مگر ساحر اس بے مثال تخلیقی قوتوں کا حامل تھا۔ کہ اسے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اس نے روی‘ خیام‘ روشن‘ دتا نائک‘ شنکر جے کشن کے ساتھ بہت کام کیا۔ فلم پروڈیوسر‘بلدیوراج چوپڑا تو خیر ساحر کے کلام کا عاشق تھا۔ وہ ساحر کے انتقال تک‘ صرف اس سے نغمے لکھواتا تھا۔ ساحر کو اپنی اہمیت کا بخوبی پتہ تھا۔ وہ لتا منگیشکر سے ایک روپیہ معاوضہ زیادہ لیتا تھا۔ فلم سازوں پر اتنا اثر تھا کہ ‘ فلمیں اپنے گانوں کے حساب سے لکھواتا تھا۔ ویسے لتا‘ ساحر کے رویہ سے کافی شاکی تھی۔ اور دونوں کے درمیان ہم عصرانہ چشمک برملا موجود تھی۔ ساحر‘ 1980 میں جہان فانی سے کوچ کر گیا۔
اس وقت عمر محض اکاون (51) برس تھی۔ زندگی میں ساحر کی امریتا پریتم سے محبت‘ یکسر ناکامی کا شکار رہی۔ ان کا عشق لازوال تھا۔ مگر دونوں ایک دوسرے کے لیے تخلیق نہیں کیے گئے تھے۔ ان کی اس محبت پر ’’پیاسا‘‘ فلم بھی بنائی گئی۔ صابر دت‘ چندر ورما اور ڈاکٹر سلمان عابد نے ساحر کی زندگی کے اہم واقعات کو ترتیب سے محفوظ کیا اور اس تخلیق کا نام تھا‘ ’’میں ساحر ہوں‘‘۔ بالکل اس طرح ‘’’اکشے مندانی‘‘ نے ساحر کے تمام قریبی دوستوں کا انٹرویو کیا۔ جن میں ‘ یش چوپڑا‘ دیو آنند‘ جاوید اختر‘ خیام‘ روی شرما‘ سودھا ملہوترا اور روی چوپڑا نمایاں ہیں۔
اب کچھ ساحر کی شاعری کے چند اقتباسات ۔
شہکار۔مصور میں ترا شہکار واپس کرنے آیا ہوں
اب ان رنگین رخساروں میں تھوڑی زردیاں بھر دے
حجاب آلود نظروں میں ذرا بے باکیاں بھر دے
لبوں کی بھیگی بھیگی سلوٹوں کو مضمحل کر دے
نمایاں رنگ پیشانی پہ عکسِ سوزِ دل کر دے
تبسم آفریں چہرے میں کچھ سنجیدہ پن بھر دے
جواں سینے کی مخروطی اٹھانیں سرنگوں کر دے
…………
ہر چند میری قوت گفتار ہے محبوس
خاموش مگر طبعِ خود آرا نہیں ہوتی
معمورہِ احساس میں ہے حشر سا برپا
انسان کی تذلیل گوارا نہیں ہوتی
نالاں ہوں میں بیداری احساس کے ہاتھوں
دنیا مرے افکار کی دنیا نہیں ہوتی
…………
لہو نذر دے رہی ہے حیات
میرے جہاں میں سمن زار ڈھونڈنے والے
یہاں بہار نہیں آتشیں بگولے ہیں
دھنک کے رنگ نہیں سر مئی فضاؤں میں
افق سے تابہ افق پھانسیوں کے جھولے ہیں
پھر ایک منزل خونبار کی طرف ہیں رواں
وہ رہنما جو کئی بار راہ بھولے ہیں
…………
وجہ بے رنگی گلزار کہوں تو کیا ہو
کون ہے کتنا گنہگار کہوں تو کیا ہو
تم نے جو بات سربزم نہ سننا چاہی
میں وہی بات سردار کہوں تو کیا ہو
…………
گلشن گلشن پھول
گلشن گلشن پھول
دامن دامن دھول
مرنے پر تعزیر
جینے پر محصول
ہر جذبہ مصلوب
ہر خواہش مقتول
عشق پریشاں حال
ناز حسن ملول
…………
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
روح کیا ہوتی ہے اس سے انھیں مطلب ہی نہیں
وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں
روح مر جائے تو یہ جسم ہے چلتی ہوئی لاش!
اس حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں
…………
وہ زندگی جو تھی اب تک تری پناہوں میں
چلی ہے آج بھٹکنے اداس راہوں میں
تمام عمر کے رشتے گھڑی میں خاک ہوئے
نہ ہم ہیں دل میں کسی کے نہ ہیں نگاہوں میں
وہ زندگی جو تھی اب تک تیری پناہوں میں
کسی کو اپنی ضرورت نہ ہو تو کیا کیجیے
…………
کہ صرف عمر کٹی زندگی نہیں گزری
غزل کا حسن ہو تم نظم کا شباب ہو تم
صدائے ساز ہو تم نغمۂ رباب ہو تم
جو دل میں صبح جگائے وہ آفتاب ہو تم
اگر مجھے نہ ملیں تم تو میں یہ سمجھوں گا
…………
یہ ایک راز کہ دنیا نہ جس کو جان سکی
یہی وہ رات ہے جو زندگی کا حاصل ہے
تمہی کہو! تمہیں یہ بات کیسے سمجھاؤں
کہ زندگی کی گھٹن زندگی کی قاتل ہے
ہر اک نگاہ کو قدرت کا یہ اشارہ ہے
…………
جسم کا بوجھ اٹھائے نہیں اٹھتا تم سے
زندگانی کا کڑا بوجھ سہو گی کیسے
تم جو ہلکی سی ہواؤں میں لچک جاتی ہو
تیز جھونکوں کے تھپڑوں میں رہو گی کیسے
اتنی نازک نہ بنو‘ اتنی بھی نازک نہ بنو
…………
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
عجب نہ تھا کہ میں بے گانہ‘ الم ہو کر
تیرے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
تیرا گداز بدن‘ تیری نیم باز آنکھیں
انھی حسین فسانوں میں محو ہو رہتا
کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھوبھی سکتی تھی
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
تیرے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا
عرض ہے کہ ساحر‘ واقعی ساحر تھا اردو زبان کا واحد ساحر۔