35 C
Lahore
Sunday, June 15, 2025
ہومغزہ لہو لہوسوشل میڈیا کا استعمال - ایکسپریس اردو

سوشل میڈیا کا استعمال – ایکسپریس اردو


ہماری قوم کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم نے جدید ذرایع اور ٹیکنالوجی کا منفی استعمال کیا ہے۔ جس کی بدولت ہم انحطاط کی جانب مائل ہوتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے معاشرتی بگاڑ بھی پیدا ہورہا ہے۔ بعض ایسی ایپلی کیشن بھی ہیں کہ اس پر نوجوان لڑکے خصوصاً لڑکیاں  صرف پندرہ بیس سکینڈ کی وڈیو  پیش کرتے ہیں، شئیر کر کے مشہور ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور لایعنی شہرت کے دلدادہ بننا چاہتے ہیں۔

اس طرح سوشل میڈیا نوجوان نسل میں نشے کی طرح پنپ رہا ہے ،ایسی ایپلی کیشن انٹرنیٹ پر دنیا کی مشہور ترین ایپلیکیشن بن گئی ہیں۔ یہ ایپلی کیشن نوجوانوں بلکہ نوجوان  لڑکیوں میں اس لیے زیادہ مقبول ہیں کیونکہ اس  کے ذریعے آسانی سے خود نمائی کی حرکتیں دوسروں تک پہنچائی جاسکتی ہیں اور صارفین کے دل لبائے جاتے ہیں۔ 

جس کے ردعمل میں صارفین کی طرف سے اس پر کمنٹس کی بھرمار ہوجاتی ہے اور بعض صارفین پرائیوٹ رابطہ نمبر اور نازیبا تصویروں کی فرمائش بھی کرتے ہیں جو اصلاح معاشرہ کے بجائے ہمارے معاشرے کو ہر نئے دن کے ساتھ بگاڑ اور تباہی کی طرف لے جا رہا ہے اور معاشرے کے افراد خاموشی سے اس  سمندر میں ڈوبے جا رہے ہیں۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ  اس لاعلاج بیماری میں صرف نوجوان لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ ادھیڑ عمر بوڑھے، بوڑھی خواتین، بچے، بہن بھائی، ماں باپ اور دیگر افراد بھی دیوانے ہو رہے ہیں۔ بعض لوگ کچھ غیر اخلاقی اور غیر سنجیدہ وڈیوز  بناکر لوگوں میں شیئر کرتے ہیں، جس سے بیہودگی اور  زیادہ بڑھ رہی ہے۔ 

ایسی وڈیو شئیر ہو رہی ہیں جس میں تعلیمی اداروں میں چھوٹی عمر کے طلباء اور طالبات کلاس روم میں ڈانس کررہے ہیں اور تعلیمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

باپ کے ساتھ یا اس کی موجودگی میں کم سن لڑکیاں اور لڑکے ناچ رہے ہیں اور والدین فخر کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل میں  سوشل میڈیا پر وڈیوز بنانے اور اس میں ایڈونچر شامل کرنے کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے، تاکہ لائکس کمنٹس ویوز زیادہ ملیں۔ آئے دن نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی حادثاتی موت کے واقعات کی خبریں میڈیا پر نشر ہوتی رہتی ہیں جس میں وڈیو بناتے وقت پہاڑوں سے پاؤں پھسلنا، رائفل یا پستول کی اچانک گولی چل جانا، وڈیو بنانے کے شوق میں کوئی اپنی ہی رائفل کا شکار ہوا، سمندر یا دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو جانا، ریل کی پٹری پر وڈیو بنانا اور حادثاتی طور پر ٹرین کی زد میں آ جانا، ویوز لائک کمنٹس کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے انتقامی کارروائی کرنا۔

اگر پورے ملک میں مجموعی صورتحال دیکھی جائے تو کئی لوگ نہروں میں، سوئمنگ پول میں چھلانگیں لگاتے ہوئے حادثات کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔ غرض یہ کہ لوگ کسی مثبت سرگرمی کے بجائے خطرات سے کھیلنے کی وڈیو زیادہ بناتے ہیں۔ ایسی وڈیو بنانے کے باعث ملک بھر میں لڑکیوں سمیت درجنوں نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا کو بیشتر صارفین تفریح اور شغل کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ نوجوان نسل کی تباہی کا ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جو غیر ارادی طور پر ان کے ذہنی استعداد کے ساتھ ساتھ اخلاقی زوال کا سبب بھی بنتا جا رہا ہے۔

 صارفین اپنا زیادہ تر وقت وڈیوز اپ لوڈ کرنے اور دیکھنے میں صرف کرتے ہیں جس سے ان کا تعلیمی عمل بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ اسمارٹ سوشل ویب سائٹ کے مطابق اس  طرف نوجوان نسل کے بڑھتے ہوئے رجحان میں اہم ترین نقصان میںسوشل میڈیا ایڈکشن کی  عادت ہے جو بری طرح ان کی صحت اور دیگر مثبت سرگرمیوں کو روند ڈالتا ہے۔

والدین اپنے بچوں کو ڈیجیٹل دنیا میں محفوظ، ذمے دار اور مثبت انداز میں شمولیت اختیارکرنے کی تربیت دیں، والدین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس، دوستوں کی فہرستوں اور روزانہ کی سرگرمیوں کا باقاعدگی سے جائزہ لیں، پیغامات، تصاویر اور پوسٹس کی نگرانی کر کے کسی بھی مشکوک یا غیر معمولی سرگرمی کا فوری ادراک ممکن بنائیں، سوشل میڈیا کے استعمال، درپیش چیلنجز اور آن لائن تنازعات پر باقاعدگی سے گفتگو کریں تاکہ ان کا شعور بڑھے اور وہ محفوظ رہ سکیں۔

والدین  یہ سب جاننے کے باوجود بھی کیوں اپنے نونہالوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہے ہیں۔ ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے فخر کرتے ہیں اور جب کوئی نا قابل یقین اندوہناک واقعہ ہوتا ہے تو سوائے پچھتاوے، دَرْد و اَلَم اور ماتم کے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے نوجوان جو موبائل فون میں گم ہیں یقینا  موبائل فون انقلاب ضرور لایا۔

نوجوانوں کو کمزور کرنے میں بنیادی کردار بھی موبائل فون کا ہی ہے۔ معاشرتی اقدار کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ بلا وجہ وقت کا ضیایع  ناسور ہے، اب جب اس قسم کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو حکومت کو اس پر مستقل پابندی کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

والدین اور حکومتی اداروں کی ذمے داری بنتی ہے کہ نوجوان نسل کو معاشرتی برائی سے بچانے کے لیے چوکس رہیں اور اس وباء کو روکنے کے لیے ممکن اقدامات کریں۔

اسکول اور کالجوں میں اساتذہ کرام اگر تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ  برائیوں اور فضول وقت ضایع کرنے کے نقصانات اور اس کے نتائج پر بات کریں تو کافی حد تک قوم کے بچوں اور بچیوں کی جسمانی، نفسیاتی اور تعلیمی مستقبل کو سدھارا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی چیز بذات خود بری نہیں ہوتی بلکہ اکثر اس کا استعمال اس کے اچھے یا برے ہونے کا تعین کرتا ہے۔

ایسا کوئی بھی فضول کام جو ہماری ثقافت ختم کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے جو ہماری حیا ء کو بھی ختم کررہا ہے ، اس سے دور رہا جائے۔ اعداد و شمار کے مطابق 16سے 24سال کی عمر کے نوجوان اوسطاً یومیہ54منٹ  سوشل میڈیا  پر لگاتے ہیں، روزانہ رات کو 3 بجے تک وڈیوز دیکھتے ہیں جس کے باعث ان کے مارکس کم آرہے ہیں۔

سوشل میڈیا کا معاشرے میں  10فیصد مثبت اور 90فیصد منفی استعمال ہو رہا ہے۔ نوجوان جب وڈیو بنانا شروع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں میرے کتنے فالورز اور ویوورز ہیں، اس سے ان میں فالورز بڑھانے کا نفسیاتی دباؤ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اور جنریشن گیپ آرہا ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات