وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافہ مایوس کن ہے۔ وفاقی بجٹ میں نجی شعبے میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کی تنخواہوں میں اضافے کا معاملہ بجٹ میں شامل نہیں ہے اور اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ(EOBI) کی پنشن میں اضافے کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔
وفاقی وزراء، اراکینِ پارلیمنٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500 فیصد اضافے کے مقابلے میں سرکاری اور ریٹائرڈ ملازمین کے لیے یہ اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ وزیر خزانہ سے جب پریس کانفرنس کے دوران سوال کیا گیا کہ بجٹ میں نجی شعبے کے کارکنوں کی کم سے کم تنخواہ کا معاملہ شامل نہیں ہے تو موصوف نے کہا کہ نجی شعبہ حکومت کے کم سے کم تنخواہ کے فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، یوں غریب کارکنوں کے ساتھ ناروا سلوک کی ایک اور مثال سامنے آگئی۔ یہ حقیقت ہے کہ مصارف زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
حکومت نے اس بجٹ میں پٹرولیم کی مصنوعات پر فی لیٹرکاربن لیوی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عالمی منڈی میں ڈیزل، فرنس آئل اور پٹرول کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، تاہم بجٹ کی دستاویزات کے عمومی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیزل ، فرنس آئل، پٹرول پر 2.50 روپے لیوی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت بتدریج پٹرولیم پر عائد لیوی کو 100 روپے تک لے جائے گی، اگر عالمی منڈی میں پٹرول و ڈیزل کی قیمت مزید بڑھ گئی تو ہمارے ملک میں پٹرول کی قیمتیں نہ جانے کہاں تک پہنچیں گی، اس کا حتمی تعین تواعداد و شمار کے ماہرین ہی کرسکتے ہیں۔
وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں بجلی کے بلوں پر 10 فیصد سرچارج لگانے کا تذکرہ کیا تھا ۔ایک اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے کو قابو میں لانے کے لیے سرچارج عائد کرنے کے لیے نیپرا کے قانون میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ترمیم سے حکومت کو ڈی ڈی ایس پی کے تحت سرچارج عائد کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔ اس رپورٹ کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایات پر ان اقدامات کے بارے میں فیصلہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں اس فیصلے کو واپس لینے کا اعلان کیا ہے، مگر بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر حکومت اس سال کسی نہ کسی طرح عمل کرے گی۔
بجٹ سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ 50 ہزار روپے ماہانہ سے ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدنی پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اس طرح حکومت کے پاس اضافی 9 ارب روپے جمع ہونگے۔ یہ رقم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ حکومت نے مراعات یافتہ طبقے کو نوازنے کے لیے ایک اور فیصلہ کیا ہے جس کے تحت 22 لاکھ سے زائد آمدنی والے افراد جو زیادہ سے زیادہ 3 لاکھ سالانہ ٹیکس دیتے ہیں۔ اب سالانہ 2 لاکھ 42 ہزار روپے ٹیکس دیں گے۔ اسی طرح حکومت نے کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والی اشیاء کے علاوہ ڈبل روٹی اور مکھن حتیٰ کہ انڈوں پر جی ایس ٹی کی شرح برقرار رکھی ہے۔
ان فیصلوں کے نتیجے میں حکومت کے دعوؤں کے باوجود مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ پٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل پر عائد سرچارج کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ کے کرایے بڑھیں گے۔ جب ٹرانسپورٹ مثلاً بسوں، ٹرالر اور ٹینکروں کو مہنگا فیول ملے گا تو پھر اس کی قیمت سمیت تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نتیجے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اس وقت عام آدمی جن میں سرکار ی ملازمین بھی شامل ہیں کی آمدنی کا بیشتر حصہ مکان کے کرایوں، بچوں اور خاندان کے افراد کی صحت اور تعلیم کے مصارف، بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے۔
گزشتہ پانچ برسوں میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہزارگنا اضافہ ہوا ہے، اس کے نتیجے میں نچلے متوسط طبقے کے علاوہ متوسط طبقے کے خاندانوں کی بجلی اورگیس کے بلوں کی رقم مکان کے کرائے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اس وقت عام آدمی کے لیے ایک مسئلہ پرائیوٹ اسپتالوں کے اخراجات کے علاوہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کا بھی ہے۔ اس وقت تمام امراض کی ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ عام آدمی مناسب وقت پر مناسب مقدار میں دوائیں لینے سے محروم ہوگیا ہے۔ حکومت نے بجٹ میں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، ان کے نتیجے میں فارما سوٹیکل کمپنیوں پر نیا بوجھ آئے گا، یہ صنعت پہلے ہی بحران کا شکار ہے۔
بھارت سے ادویات کی تیاری کے خام مال کی درآمد کرنے پر پابندی کی بناء پر ادویات پر آنے والی لاگت بڑھ گئی ہے۔ اب اس صورتحال میں ادویات کی قیمتیں مزید بڑھیں گی، جس کے نتیجے میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں یہ معمولی اضافہ کسی کام کا نہیں رہے گا۔ جب سے حکومت نے آئی ایم ایف کے مطابق اصلاحات کے لیے اپنی پالیسی کو سخت کیا ہے تو سارا نزلہ سول سرکاری ملازمین کی پنشن پر گررہا ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پنشن کی مراعات کم کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ شریکِ حیات کے انتقال کے بعد مکمل پنشن کی مدت 10 سال کردی گئی ہے۔ اب تک سرکاری پنشن کے قواعد و ضوابط کے تحت شریکِ حیات کے انتقال کی صورت میں بیوہ یا سرکاری ملازمہ کے شوہر کو تاحیات پنشن ملتی ہے، اگر پنشن پانے والے شخص کا انتقال ہوجائے تو ان کی غیر شادی شدہ بیٹی یا مطلقہ بیٹی کو یہ پنشن منتقل ہوجاتی ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ پنشن کے ان معاملات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوتی ہے، یوں اربوں روپے غیر شفاف انداز میں استعمال ہوتے ہیں مگر حکومت نے پنشن کے نظام کو شفاف بنانے کے بجائے پنشن کی مراعات میں کمی کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ غریب سرکاری ملازمین کے لیے مایوس کن ہے۔ بیشتر سرکاری ملازمین اگر ایمانداری سے زندگی گزارتے ہیں تو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا گزارہ پنشن پر ہوتا ہے۔ ایک بیوہ کی عمر کم ہو تو طویل زندگی کے لیے اس کے پاس پنشن کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہوتا۔ اسی طرح غیر شادی شدہ بیٹی یا مطلقہ بیٹی کے پاس کوئی متبادل ذرایع آمدنی نہ ہو تو اس کا گزارہ پنشن پر ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پنشن کے معاملات مکمل طور پر شفاف ہونے چاہئیں۔
اس طرح کم از کم بیوہ کو تاحیات پنشن ملنی چاہیے۔ حکومت اس طرح کا طریقہ کار وضع کرے کہ اگر کسی سرکاری ملازم کی غیر شادی شدہ بیٹی یا مطلقہ بیٹی کے پاس آمدنی کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ ہے تو پھر تو اس کو پنشن نہیں ملنی چاہیے، تاہم اگر اس کا گزارہ باپ کے گھر پر ہو رہا ہے تو پھر اسے پنشن ملنی چاہیے۔ اسی طرح غیر سرکاری شعبے کے ملازمین کے لیے ای او بی آئی کی پنشن میں اضافہ نہ ہونا بھی مایوس کن ہے۔
روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے رواں مالیاتی سال کے دوران پارلیمنٹ کی پیشگی منظوری کے بغیر اپنے اخراجات کے لیے 345ارب روپے کی اضافی رقوم حاصل کی ہیں، اب حکومت نے قومی اسمبلی سے اس رقم کی منظوری طلب کی ہے اگرچہ حکومت نے اخراجات پر سخت کنٹرول کا دعویٰ کیا تھا مگر اتنی بڑی رقم کا خرچ ہونا معاشی نظم و ضبط پر ایک سوال ہے، حکومت جب اپنے اخراجات کے لیے یہ رقم قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر حاصل کرسکتی ہے، تو غریب لوگوں کی بہبود کے معاملے کوکیوں معاشی نظم و نسق کی آڑ لے کر پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
خبر یہ ہے کہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا نوٹس لیا ہے، وزیر اعظم صاحب کو غریب سرکاری اور ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ اسلام آباد کے فیصلہ ساز ادارے کے ماہرین کو اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ پاکستان میں شہریوں کو سماجی تحفظ دینے کے لیے ریاست کا کردار مایوس کن ہے۔ اس لیے پنشن کے قوانین میں تبدیلی سے منفی نتائج برآمد ہونگے۔