اسرائیل نے 200 لڑاکا طیاروں کے ساتھ ایران کی 100 سے زیادہ تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے جس میں پاسداران انقلاب کے سربراہ، آرمی چیف سمیت متعدد اہم کمانڈرز اور 6 جوہری سائنسدان شہید ہوئے ہیں، جس کی ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا نے تصدیق کی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک واضح پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران نے اسرائیل پر جوابی حملہ کیا، تو امریکا اسرائیل کا مکمل دفاع کرے گا۔
بلاشبہ اسرائیل کے ایران پر اچانک بلاجواز حملے کے پیچھے امریکا کی آشیر آباد شامل ہے، جب کہ ایران کو کوئی بھی جوابی اقدام اٹھانے سے پہلے کئی پہلو مدِ نظر رکھنا ہوں گے۔ اس کی دفاعی صلاحیت کی اپنی محدودات ہیں پھر پابندیوں کے باعث بحرانوں میں گھری معیشت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک جانب تو علاقائی اور عالمی امن کے چیمپیئن بننا چاہتے ہیں اور دوسری جانب اسرائیلی بربریت کی سرپرستی کرکے علاقائی اور عالمی امن کو خود تاراج کر رہے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں پہلے ہی بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان اسرائیل کی اس تازہ کارروائی نے خطے میں ہمہ گیر جنگ کے خدشات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ امریکا کی پیشگی منظوری اور اعانت سے ایران پر اسرائیلی حملے نے تیسری اور سب سے خطرناک عالمی جنگ کی بنیاد رکھ دی ہے۔
پاکستان، سعودی عرب، ملائیشیا اور بعض دوسرے ممالک نے اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں ایران کی علاقائی خود مختاری، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی مجرمانہ خلاف ورزی قرار دیا ہے اور عالمی برادری سے اسرائیل کو عالمی امن خطرے میں ڈالنے سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکا جس طرح دہشت گرد اسرائیل کو اسلحہ اور گولہ بارود مہیا کر کے اسے شہہ دے رہا ہے، اس سے یہ پوری طرح واضح ہورہا ہے کہ امریکا عالمی امن کے خلاف ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل دونوں کی حالت کٹھ پتلیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور مسلسل قراردادوں کے منظور ہونے کے باوجود اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہ کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ مسلم ممالک اگر ہمت کرسکتے ہیں تو خود ہی ہتھیار اٹھا کر اسرائیل کو سبق سکھا دیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران کھوکھلے بیانات جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کررہے ہیں اور ان کی اسی بے عملی کی وجہ سے صورتحال اس حد تک بگاڑ کا شکار ہوگئی ہے کہ اب یہ جنگ غزہ سے نکل کر پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیلتی دکھائی دے رہی ہے۔
ایک جانب تو امریکا نے ایران پر ایک نئے جوہری معاہدے کے لیے مذاکرات کا ڈول ڈال رکھا تھا جس پر ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کہہ چکے ہیں کہ امریکا کی طرف سے بھیجی گئی نئی جوہری معاہدے کی تجویز ’مبہم اور سوالات‘ پر مشتمل ہے اور اس تجویز کے کئی نکات واضح نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایرانی سرزمین پر یورینیم کی افزودگی جاری رکھنا ہماری سرخ لکیر ہے اور ان کا ملک آیندہ چند دنوں میں امریکی تجویز کا جواب دے گا جو کہ ایران کے اصولی موقف اور ایرانی عوام کے مفادات پر مبنی ہو گا۔‘‘
دراصل یورینیم کی افزودگی ان مذاکرات میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان ایک کلیدی اختلافی نکتہ بنی ہوئی ہے۔ ایران کا مؤقف ہے کہ اسے پرامن جوہری توانائی کے حصول کا حق حاصل ہے جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ ایران کو ممکنہ معاہدے کی صورت میں یورینیم کی کوئی بھی افزودگی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
IAEA کی رپورٹ کے مطابق، ایران نے 60 فیصد تک خالص یورینیم کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے، جو کہ تقریباً 90 فیصد کی سطح کے قریب ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ مغربی ممالک، بشمول امریکا، طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں، جب کہ ایران مسلسل یہ مؤقف دہراتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
دوسری جانب کچھ عرصہ قبل امریکی صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا تھا۔ ٹرمپ کے دورہ پر سعودیہ اور امریکا میں 142ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے ہوئے۔ اس دورہ کے دوران ایک پریس کانفرنس میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ اگر ایرانی قیادت نے زیتون کی شاخ اٹھانے کے بجائے جوہری بندش کی ڈیل سے انکار کیا تو نہ صرف یہ کہ مزید پابندیاں لگیں گی بلکہ تہران کی آئل برآمدات زیرو کردیں گے اور یہ ایشو جنگ تک جا سکتا ہے۔ اور پھر یہی بات ٹرمپ کی سچ ثابت ہوئی ہے کہ انھوں نے امریکا کو پس منظر میں رکھتے ہوئے اسرائیل کو آگے کر کے ایران پر حملے کی شہہ دی ہے۔
حالانکہ ٹرمپ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ میں جنگوں کو روکنا چاہتا ہوں، روس اور یوکرین کی جنگ روکنے کے لیے کوشاں ہوں، لیکن عملی طور پر وہ صرف اتنا کرسکے کہ یوکرین کے صدر کو امریکا بلا کر ڈانٹ پلا دی، جب کہ روس کو مذاکرات کی میز پر لانے میں ناکام رہے۔
اسی طرح ان کا سعودی عرب پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا فتنہ پروری اور مسلم دنیا کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کے مترادف ہے، نجانے کیوں امریکی صدر کی نظر ابھی تک غزہ کی طرف نہیں اٹھ رہی جہاں اسرائیلی بمباری اور خوراک کی بندش کے باعث ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، بمباری بھوک اور بیماریاں تیزی سے انسانوں کی زندگیاں چھین رہی ہیں، اس کی براہ راست ذمے داری اسرائیل اور امریکا پر عائد ہوتی ہے، ایک طرف ٹرمپ کہتے ہیں ’’مجھے جنگیں پسند نہیں، دنیا میں امن کی خواہش رکھتا ہوں‘‘ دوسری طرف اسلحہ فروخت کے معاہدے کیے جا رہے ہیں جو تشویشناک عمل ہے ایک طرف امن کی باتیں اور دوسری طرف دورے کے دوران دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ اگر ایران نے ان کی یہ پیشکش مسترد کی تو پھر وہ اس پر دباؤ میں اضافہ کر دیں گے اور تہران کی تیل کی برآمدات زیرو کر دیں گے، امریکا امن کے قیام کے لیے فوجی طاقت استعمال کر رہا ہے۔
امریکا اپنے دوستوں اور شراکت داروں کا تحفظ جاری رکھے گا جب کہ ٹرمپ کو صرف یوکرین میں مظالم نظر آ رہے ہیں کشمیر اور غزہ کے معاملے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں جس سے امریکا کی دروغ گوئی عیاں ہے۔ دنیا بھر میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو ریاستی منصوبے کی حمایت بڑھ رہی ہے مگر اسرائیل زبردستی فلسطین کے زرعی رقبے کو مسلسل غصب کر رہا ہے وہاں سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے یہودیوں کو آباد کر رہا ہے۔ غزہ کے نیم خود مختار علاقے کو بھی اس نے تباہ و برباد کر کے ایک ویران کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے، لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔
ہزاروں شہید ہوئے، ہزاروں معذور ہوئے، غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء دستیاب نہیں نہ ہی ادویات میسر ہیں، اسرائیل نے محاصرہ کرکے تمام راستے بند کردیے ہیں تاکہ فلسطینی وہاں سے نکل جائیں۔ ان حالات میں امن کی کنجی صرف امریکا کے ہاتھ میں ہے۔ اگر امریکا عرب ممالک کے ساتھ واقعی باہمی امن و احترام اور دوستی کا رشتہ قائم رکھنا چاہتا ہے تو اسے اسرائیل کو پٹہ ڈالنا ہوگا۔
فلسطینیوں کی ریاست اور خود مختاری کا احترام کرنا ہوگا، القدس شریف پر فلسطینیوں کا حق تسلیم کرکے مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے، عرب ممالک بھی اس سے کم کسی اور بات پر راضی نہیں ہونگے، ٹرمپ اگر واقعی جنگوں کے مخالف ہیں تو سب سے پہلے شروعات غزہ سے کریں کشمیریوں کو ان کا حق دلائیں کیونکہ ایک طرف ظلم کا بازار گرم ہو تو دوسری طرف امن کا دعویٰ نہیں جچتا۔
اس وقت صورتحال مسلسل کشیدہ ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اسرائیل اور ایران نے تحمل کا مظاہرہ نہ کیا تو خطہ ایک بڑی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ عالمی برادری اس وقت سخت تشویش کا شکار ہے اور کئی ممالک نے فریقین سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کو اس صورتحال کے تدارک کے لیے عملی طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے، ورنہ دنیا میں قیامت سے پہلے قیامت برپا ہوسکتی ہے۔