35 C
Lahore
Friday, June 13, 2025
ہومغزہ لہو لہو’’یادوں کا سفر‘‘ (پہلا حصہ)

’’یادوں کا سفر‘‘ (پہلا حصہ)


پچھلے دنوں ایک بڑی زبردست کتاب پڑھنے کو ملی،کیا محاورہ ہے، کیا زبان ہے اور کیا انداز بیاں ہے۔ بس پڑھتے چلے جائیے، نہایت سادہ اور سلیس زبان۔ کہنے کو تو یہ خود نوشت ہے لیکن یہ ایک تاریخ ہے جس میں بڑے بڑے انکشافات بھی ہیں۔ مصنف بچپن سے بڑھاپے تک بڑے بڑے لوگوں سے ملے، ان کی صحبتیں نرالی تھیں، بڑے بڑے علمائے کرام، مشاہیر ادب اور رؤسا سے ان کا تعلق رہا، جس کی تفصیل کتاب میں درج ہے۔

یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے، اس کے مصنف ہیں اخلاق احمد دہلوی، جن کا ایک خاکہ اے حمید نے اپنے کالموں کے مجموعے ’’سنگ دوست‘‘ میں لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔ آج قارئین کا تعارف اخلاق احمد دہلوی کی خود نوشت ’’یادوں کا سفر‘‘ سے ہوگا۔ اس کتاب کی خوبی اس کی زبان ہے، نہایت سادہ اور دلچسپ، اخلاق صاحب نے بڑے بڑے نامور ادیبوں، شاعروں اور مختلف شخصیات کے ساتھ پرورش پائی ہے۔

اس میں دلّی کی ’’ ٹکسالی زبان‘‘ نظر آتی ہے۔ ویسے بھی دلّی کی زبان سادہ اور دلکش ہے جب کہ لکھنؤ کی مشکل۔ خواجہ حسن نظامی کی تمام تصنیفات میں بھی یہی ٹکسالی زبان نظر آتی ہے۔ دلّی کا محاورہ ہی الگ ہے، زبان کے معاملے میں دلّی والے بڑے حساس ہوتے ہیں، جہاں کسی نے غلط الفاظ استعمال کیے انھوں نے خبر لی۔ لیکن اب تو خالص دلّی والوں کے بچے جو زبان بولتے ہیں انھیں سن کر یقین ہی نہیں آتا کہ ان کے والدین اور دادا، دادی کا تعلق دہلی سے ہے۔ جن لوگوں کو لکھنے کا شوق ہے انھیں ’’ یادوں کا سفر‘‘ ضرور پڑھنی چاہیے۔ ایسے ایسے واقعات کا تذکرہ ہے جو اب تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔

’’میری دادی نے مجھ سے کہا کہ دیکھو بھئی! غریبوں کی مدد کیسے کی جاتی ہے اور تمہارے باوا میری ناک میں دم کیے جاتے ہیں کہ آپ ہر سودے والے کو بلا کرکیوں بے کار کے سودے خریدتی رہتی ہیں، میری دادی کا یہ حال تھا کہ جہاں کوئی سودے والا بولا، انھوں نے کسی کو بھیج کر اسے بلوایا اور جتنے پیسے اس نے کسی چیز کے بتائے اس سے یہ بحث شروع کر دی کہ’’بھئی! غضب کرتے ہو، اب یہ جو انگوٹھی تم ٹکے ٹکے بیچتے پھر رہے ہو، چاہے پیتل کی ہی کیوں نہ ہو مگر اس کی بنوائی گھڑوائی اور اس میں جڑا ہوا شیشے کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو، پھر اس میں الٹا سیدھا نگ بھی ہے اور پھر ان انگوٹھیوں کو ڈورے میں لگا کر تم دھوپ میں گلی گلی آواز لگا کر مارے مارے پھرتے ہو تو، کم سے کم ایک آنہ تو لگاؤ ان انگوٹھیوں کا ، ٹکے ٹکے میں بھلا تمہیں کیا ملے گا؟‘‘

اسی طرح ہر سودے والے سے بحث کرتیں اور جو دام وہ بتاتا اس سے دگنے دام میں وہ چیز خرید لیتیں، اس طرح وہ سودے خریدتیں اور محلے والوں میں بانٹ دیتیں۔ ان باتوں سے جب میرے والد چڑتے تو کہتیں ’’ اگر تمہارے والد کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں نہ کھڑی ہوتیں اور تمہیں روٹی کمانے کے لیے محنت مزدوری کرنی پڑتی تو پتا چلتا کہ بیسی کے ساٹھ ہوتے ہیں، خدا کا شکر ادا کرو کہ تمہیں خدا نے روٹی کمانے سے مجبور نہیں کیا، تمہیں پکی پکائی مل جاتی ہے، اس لیے تم سمجھتے ہو کہ سب کو من و سلویٰ مل جاتا ہے۔ دیکھو کتنے بوڑھے لوگ، کتنا وزن اٹھائے پھرتے ہیں اپنی کمر پر۔ تب جا کے کہیں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ روکھی سوکھی روٹی سے بھرتے ہیں۔‘‘

’’ہمارے والد بتاتے تھے کہ ایک دن جب سارے مشاہیر بیٹھے تھے، ان بیگم صاحبہ (بہادر شاہ ظفر کی پوتی) کی باتیں سن رہے تھے تو ان بیگم صاحبہ نے حکیم اجمل خاں سے مخاطب ہو کر فرمایا:

’’حکیم صاحب! ماشا اللہ آج کل تو آپ کی طوطی بول رہی ہے۔‘‘ اس پر حکیم صاحب بولے ’’بیگم صاحبہ! آپ جو کچھ فرمائیں بجا ہے لیکن طوطی مذکر ہے، داغ کہتے ہیں:

خوب طوطی بولتا ہے آج کل صیاد کا

اس پر حکیم صاحب نے کہا ’’ حکیم صاحب! داغ آپ کے لیے سند ہوگا، میرے لیے تو وہ لونڈی بچہ تھا، میرے دادا بہادر شاہ ظفر یا استاد ذوق کا کوئی شعر سنائیے، تو سند کے طور پر میں مانوں۔‘‘

’’خواجہ حسن نظامی ایک دن ہمارے ہاں دستر خوان پہ بیٹھے تھے، کھانے میں دہی بھی تھا، خواجہ صاحب بولے ’’ دہی کھٹی ہے‘‘ ان کی بیگم صاحبہ نے کہا ، خواجہ صاحب! یہ فصیل سے باہر کی زبان ہے اسے نظام الدین (بستی نظام الدین) میں جا کر بولیے گا، یہاں میرا بچہ آپ کے پاس بیٹھا ہے، اس کی زبان تو نہ بگاڑیے، دہی کھٹا ہوتا ہے،کھٹی نہیں۔‘‘

’’ یہ جو آج کل ہر بچہ ہر بڑے سے بڑھ بڑھ کر ہاتھ ملاتا ہے اور خود بچوں کے والدین یا بڑے بچوں سے کہتے ہیں انکل سے ہاتھ ملاؤ۔ شیک ہینڈ۔ یہ بات پہلے کبھی نہ تھی، دستور یہ تھا کہ بچوں کو صرف یہ سکھایا جاتا تھا کہ بڑوں کو سلام کرو، خواہ وہ جواب دیں یا نہ دیں، ہاتھ بڑے بھی کم ہی ملاتے تھے اور لوگ بغل گیر صرف عید بقر عید پر ہوتے تھے۔

یہ نہیں کہ آپ لاہور سے چند گھنٹوں کے لیے چھانگا مانگا ہو کر آئیں تو ہر ایک سے گلے ملنے کا حق آپ کو حاصل ہو جائے، بچے بچے کا سلام کا جواب دینے میں (جیتے رہو، پھلو پھولو) صرف تین بزرگ تھے۔ مولانا شوکت علی، خواجہ حسن نظامی اور مولانا حسرت موہانی۔ حکیم اجمل خاں کے پوتے حکیم محمد جمال سویدا زیادہ تر امراض کا علاج مرکبات کے بجائے مفردات سے کرتے تھے۔ اگر اس درد کے سامنے کسی قیمتی غذا کی ضرورت ہوتی جیسے پھل یا مرغی کا شوربہ وغیرہ جو ان غریبوں کی حیثیت سے زیادہ ہوتا، تو دس دس یا پانچ پانچ روپے بھی مریضوں میں تقسیم کرتے۔

ایک دفعہ ایک بھنگی نے ڈیوڑھی میں حکیم صاحب کے پاؤں پکڑ لیے اور کہا، ’’حکیم صاحب! پیٹ میں آگ سی لگ رہی ہے، نہ بھوک ہے نہ پیاس۔‘‘ حکیم صاحب بولے: ’’کتے کا گوشت کھاؤ۔‘‘ سب کو حیرت ہوئی کہ یہ کیا علاج ہوا؟ لیکن حکیم صاحب کا حکم تھا، اس لیے کتے کا گوشت اس بھنگی کو کھلایا، اس گوشت کے کھاتے ہی اسے قے ہوئی اور قے میں گوشت کے ساتھ چمٹی ہوئی چچڑیاں نکلیں جو شاید وہ پانی کے ساتھ پی گیا تھا اور وہ چچڑیاں پیٹ میں جا کر انتڑیوں میں چپک گئی تھیں اور جیسے ہی کتے کا گوشت اس بھنگی کے پیٹ میں پہنچا اور وہ اس مریض کی انتڑیوں کو چھوڑ کر اپنی محبوب غذا کتے کے گوشت پر لپکیں۔‘‘

 ایک دفعہ ایک جولاہا پیٹ کے درد کی شکایت لے کر آیا تو حکیم محمد احمد خاں نے اسے چنے کھلانے کو کہا اور جیسے ہی اس مریض نے چنے کھائے اس کے پیٹ کا درد جاتا رہا۔ مصاحبوں نے پوچھا، پیٹ کے درد میں چنے؟

حکیم صاحب نے کہا، ’’ یہ جولاہا ہے، ان لوگوں میں شادی بیاہ میں شکرانہ ہوتا ہے، شکرانہ چاولوں کا خشکا ہوتا ہے جس پر لوٹے کی ٹونٹی سے گھی ڈالا جاتا ہے اور پھر بھر بھر پیالے شکر اور گھی اور شکر ان ابلے ہوئے چاولوں پر اس وقت ڈالا جاتا ہے جب مہمان دونوں ہاتھوں سے بس بس نہ کرنے لگے۔ حکیم صاحب نے بتایا یہ جولاہا کہیں سے شکرانہ کھا کر آیا تھا، یہ گھی اس کی آنتوں میں بیٹھ گیا تھا، چنوں نے جا کر وہ گھی جذب کر لیا اور پیٹ کا درد جاتا رہا۔

یہ سارے بلّی ماروں کے حکیم طبیب سے زیادہ قیافہ شناس تھے، صرف مریض کی نبض ہی نہیں دیکھتے تھے، اس کی حیثیت اور شخصیت بھی دیکھتے تھے۔ دلی کے ہر کوچے میں طبیب، شاعر اور ادیب پائے جاتے تھے، یہ جو کوچۂ چیلاں ہے جہاں ہم رہتے تھے دراصل ’’ کوچۂ چہل امیراں‘‘ کا مخفف ہے۔ یہاں امیروں، ادیبوں اور ہنرمندوں کے چالیس گھر تھے، ہر طرح کا بندہ یہاں پایا جاتا تھا، لیکن پوری دلّی ہی فنکاروں، طبیبوں، شاعروں اور ادیبوں سے بھری پڑی تھی، میر صاحب نے یوں ہی تو نہیں کہہ دیا تھا کہ:

دلّی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے

جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

 (جاری ہے)



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات