حلال پر قناعت کرنے اور حلال کو اختیار کرنے سے اﷲ تعالیٰ برکت بھی دیتے ہیں اور نیک اعمال کی توفیق بھی عطا فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے کئی مقامات پر حلال کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، کھانے پینے سے متعلق بھی انبیائے کرامؑ کو اور ان کے ذریعے ان کی امتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ حلال اور پاکیزہ چیزوں کو کھاؤ، اور نیک اعمال کرو۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے یہاں حلال روزی کے ساتھ عمل صالح کا ذکر فرمایا ہے، جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ حلال غذا کا عمل صالح میں بڑا دخل ہے۔ جب انسان کی غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق اسے خود بہ خود ہونے لگتی ہے اور جب غذا ہی حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس راہ میں مشکلات حائل ہو جاتی ہیں اور آدمی نیکی سے محروم ہوجاتا ہے۔
حرام کی نحوست:
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا کھانا پینا حرام ہو، اسے دعاؤں کی قبولیت کی بھی آس نہیں لگانی چاہیے، اسے دعاؤں کی قبولیت کی بھی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ سننِ ترمذی میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک شخص جو طویل لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال ہے، اور اس کے بال خاک آلود ہو رہے ہیں وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے: اے میرے رب! اے میرے پروردگار! یعنی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر پکار رہا ہوتا ہے، اس کی ظاہری حالت سے مسکنت عیاں ہے، قابلِ رحم شخص لگتا ہے، ایسی حالت میں اس کی دعا قبول ہونی چاہیے، قبولیت کے ظاہری اسباب بھی موجود ہیں، اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسافر کی دعا رد بھی نہیں ہوتی، اس سب کچھ کے باوجود آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس شخص کی روٹی حرام، کپڑے اس کے حرام، اور جسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہُوا ہو تو اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو ؟
آج کل بہت سی دعائیں کی جاتی ہیں، مگر لوگوں کا شکوہ یہ ہوتا ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں، اس لیے ہر شخص کو اپنے حال پر غور کرنا چاہیے، اور اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے کہ میں کتنا حلال کماتا ہوں، اور کس قدر اپنے آپ کو حرام سے بچاتا ہوں؟
مستجاب الدعوات بننے کا عمل:
دعاؤں اور عبادات کی قبولیت کے لیے بھی حلال کھانا شرط ہے، اسی لیے ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے گزارش کی کہ یارسول اﷲ! ’’آپ میرے حق میں دعا فرمائیے کہ اﷲ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایا کرے۔‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’سعد! پاکیزہ چیزیں کھاؤ، حلال لقمہ کھایا کرو، اﷲ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا رہے گا۔‘‘
حرام کی آمیزش سے بھی بچنے کا حکم:
ہمارا دین اور ہمارے پیغمبر خاتم النبیین جناب نبی کریم ﷺ نے ہمیں حرام کی ذرّہ برابر آمیزش سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے، حرام مال اگرچہ قلیل کیوں نہ ہو اس کو بھی اپنے حلال مال میں خلط ملط نہ کریں، حرام کو حلال میں شامل نہ کریں، اگرچہ زیادہ مال حلال ہو اور اس میں کسی قدر حرام شامل ہوجائے یہ بھی انسان کے لیے عبادات اور دعاؤں کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ مشکوٰۃ شریف میں سیدنا حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے ایک روایت منقول ہے، وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ایک کپڑا دس درہم میں خریدے اور ان دس درہم میں سے ایک درہم بھی حرام مال کا ہو تو اﷲ تعالیٰ اس وقت تک اس شخص کی نماز نہیں قبول کرے گا جب تک کہ آدمی کے جسم پر وہ کپڑا ہوگا۔ اس حدیث کے بیان کرنے کے بعد حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے اپنی شہادت کی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالیں اور کہا کہ یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں اگر میں نے یہ رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہو۔
صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک راستے سے گزر رہے تھے، وہاں آپ ﷺ نے ایک کھجور کا دانہ پڑا دیکھا، تو ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اگر مجھے اس کھجور کے بارے میں صدقے کا خوف نہ ہوتا تو میں اسے کھا لیتا۔‘‘ یعنی رسول اﷲ ﷺ نے صدقے کے شبے کی وجہ سے وہ کھجور نہیں کھائی، باوجود یہ کہ آپؐ کو ضرورت تھی۔ اسی لیے ضرورت کے مواقع پر بھی انسان اپنے آپ کو مشتبہ سے بچا لے، یہ کمالِ احتیاط ہے۔
امام ابُوحنیفہؓ بہت بڑے فقیہ، عالم ہونے کے ساتھ کپڑے کے بہت بڑے تاجر بھی تھے۔ آپ کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ مشتبہ چیزوں سے بالکل اجتناب کرتے تھے۔ ان کے بارے میں ایک واقعہ یہ لکھا ہے کہ انہوں نے ایک کپڑا بنوا کر ایک تاجر کو وہ کپڑا فروخت کرنے کے لیے بھیجا، اس تاجر نے یہ دیکھا کہ فی الحال اس کپڑے کے دام ذرا سستے ہیں اور کچھ مہینوں بعد اس کے دام زیادہ ہوجائیں گے تو کپڑا فروخت کرنے سے روک لیا، تاکہ کچھ عرصے کے بعد بیچنے سے زیادہ رقم وصول ہو۔
کچھ ماہ بعد جب لوگوں کی ضرورت بڑھی تو انہوں نے دام بڑھاکر کپڑا فروخت کر دیا، اب جب زیادہ رقم لے کر امام ابُوحنیفہؒ کے پاس پہنچے اور خوشی سے بتایا کہ اس کے کچھ عرصہ روک دینے اور کچھ قیمت بڑھانے سے زیادہ دام وصول ہوئے ہیں، تو امام ابوحنیفہؒ نے انہیں جواب دیتے ہوئے فرمایا: معاذاﷲ! اﷲ کی پناہ! آپ نے لوگوں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ کہہ کر خفا ہوگئے اور فرمایا کہ اس مال میں اشتباہ پیدا ہوگیا ہے، لوگوں نے اپنی مجبوری کی وجہ سے زیادہ رقم ادا کی ہے۔ امام صاحبؓ اس نفع پر خفا ہوئے کہ چوں کہ اس نفع میں شبہ پیدا ہوگیا ہے، لہٰذا یہ مال میں نہیں لوں گا، یہ میرے کام کا اب نہیں ہے جاؤ! یہ سب غریبوں میں تقسیم کردو، اس لیے کہ جب لوگوں کو ضرورت تھی تو تمہیں اسی وقت یہ چیز مقررہ قیمت پر بیچنی چاہیے تھی۔ اصل رقم اور نفع سارا تقسیم کروا دیا۔
دیکھیے! یہ لوگ کیسے اپنے آپ کو مشتبہات سے بچاتے تھے۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا، اپنے آپ کو محفوظ رکھا، اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا اور جو شبہ ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑگیا۔ لہٰذا جو شخص مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرتا ہے اسے نہ اپنے دین کے معاملہ میں کسی خرابی کا خوف رہے گا اور نہ کوئی اس پر طعن و تشنیع کرے گا۔
پھر رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہُوا وہ حرام میں مبتلا ہوگیا اور اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چراتا ہے اور ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں گھس کر چرنے لگیں۔‘‘ آپ نے مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہونے والے کو ممنوعہ چراگاہ کے قریب عام جانور چرانے والے چرواہے کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ جس طرح چرواہے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو کسی دوسرے شخص کی ممنوعہ چراگاہ سے دور رکھ کر چرائے، تا کہ اس شخص کے جانور اس دوسرے آدمی کی چراگاہ میں نہ گھس جائیں اور اگر چرواہا اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چرائے گا تو پھر اس بات کا ہر وقت اندیشہ رہے گا کہ اس کے جانور ممنوعہ چراگاہ میں گھس جائیں جس کے نتیجہ میں اسے مجرم قرار دے دیا جائے گا۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ مشتبہ چیزوں سے دور رہے، تا کہ حرام چیزوں میں مبتلا نہ ہوجائے۔ اور مشتبہ چیزوں سے دور رہنے کا حکم اسی بنا پر ہے۔
تاکہ آدمی حرام سے بچ پائے، اور شریعت کی اصطلاحات میں اس کو ’’سدِ ذرائع‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ امام قرطبیؒ نے اس کی ایک مثال حدیث سے بیان فرمائی ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ’’اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے یہ سن کر عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! کیا کوئی شخص اپنے والدین کو بھی گالی دے سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: لوگ اپنے ماں باپ کو اگرچہ حقیقت میں خود گالی نہیں دیتے، مگر ان کو گالی دلوانے کا سبب ضرور بنتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور اگر کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔
اس حدیث کے ذریعہ معلوم ہوا کہ دوسروں کے والدین کو گالی دینا یہ ذریعہ اور سبب بنتا ہے اپنے والدین کو گالی دلوانے کا، لہٰذا دوسروں کے والدین کو سب و شتم کردینے سے بھی منع کردیا، تاکہ یہ ذریعہ اور سبب نہ بنے آدمی کے اپنے والدین کی بے حرمتی کا۔ اس کو سدِ ذریعہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح حدیث میں شبہات سے بچنے کا حکم دیا، تاکہ حرام میں پڑنے سے آدمی محفوظ ہوجائے۔
اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: یہ جان لو کہ ہر بادشاہ کا ایک ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے، اس کی اپنی حدود ہوتی ہیں، جس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی، اور جو داخل ہوجائے وہ مجرم سمجھا جاتا ہے، سزا کا مستحق بنتا ہے، اس کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ کا ممنوعہ علاقہ اور حدود حرام چیزیں ہیں کہ جن میں مبتلا ہونا لوگوں کے لیے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
لہٰذا جو کوئی اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہوگا یعنی حرام چیزوں کا ارتکاب کرے گا وہ عذاب کا مستحق قرار دیا جائے گا اور پھر ان حرام چیزوں میں بھی بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کے مرتکب کی بخشش ہی نہیں ہوگی، جیسے شرک، اور کچھ گناہ اور جرائم ایسے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہیں کہ چاہے ان کے مرتکب کو اﷲ تعالیٰ بخشے چاہے نہ بخشے، البتہ سچے دل کے ساتھ توبہ استغفار سے ہر چیز بخشی جائے گی۔
اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسی چیزوں کے قریب بھی نہ جائے جن کی وجہ سے حرام کا دروازہ ا س کے لیے کھلتا ہو، یا جن کی وجہ سے وہ حرام میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رکھتا ہو۔ علماء لکھتے ہیں کہ جب بندہ اپنی معاشی، تمدنی اور سماجی زندگی کے تمام گوشوں میں ضرورت پر اکتفا کرلیتا ہے، یعنی بہ قدرِ ضرورت ہی کمائی، نفع اور کھانا پینا ہو کہ جس سے اس کا وجود اور اس کی عزت باقی رہے تو ایسا شخص اپنے دین میں ہر خطرہ سے سلامت رہتا ہے اور جب انسان ضرورت کی حد سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے تو مکروہات میں داخل ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ حرص و ہوس حدِ مکروہات سے نکال کر محرمات کی مد میں داخل کر دیتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا اگلا قدم کفر میں پہنچ جاتا ہے۔ العیاذ باﷲ!
حدیث مبارکہ کے آخر میں رسول کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اس بات کو بھی ملحوظ رکھو کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ (ایمان اور اعمالِ خیر کی وجہ سے ) درست رہتا ہے تو پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور جب اس ٹکڑے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے، یاد رکھو! گوشت کا وہ ٹکڑا دل ہے۔
علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں اخیر میں رسول اﷲ ﷺ نے دل کا ذکر کیا ہے، اور حدیث کی ابتداء میں حلال و حرام اور مشتبہات کا ذکر ہے۔ اس ترتیب سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ دل کی صفائی اور پاکی کے لیے یہ لازم ہے کہ انسان حلال پر اکتفا کرنے والا بنے، حرام سے بھی اور مشتبہ چیزوں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں حلال پر قناعت نصیب فرمائے اور حرام اور مشتبہ چیزوں سے ہمیں محفوظ فرمائے۔ آمین