33 C
Lahore
Friday, June 13, 2025
ہومغزہ لہو لہوبجٹ 25-26 متوازن اور عوام دوست

بجٹ 25-26 متوازن اور عوام دوست


حکومت نے مالی سال 2025-26کے لیے 17 ہزار 573 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا جس میں 6501 ارب روپے خسارہ ہے، 8207 ارب سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے، دفاع کے لیے 2550 ارب مختص کیے گئے ہیں، بجٹ میں تنخواہ دار طبقے، پراپرٹی کے شعبے کو ریلیف ملا ہے، سولر پینل کی درآمد پر بھاری ٹیکس عائد کردیا گیا۔کسانوں کو ایک لاکھ بغیر ضمانت قرض ملے گا، اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جب کہ افراط زرکی شرح 7.5 فیصد متوقع ہے۔

 بلاشبہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں آنے والا معاشی استحکام بڑی اور بامعنی اصلاحات کا باعث بنے گا اور طویل مدت میں معیشت کی ترقی میں مدد ملے گی۔ حکومت نے اپنے مالیاتی اقدامات سے ملک کو نہ صرف دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے، گو اس وقت پائیدار معاشی استحکام کی جانب سفر جاری ہے لیکن ابھی بہت جدوجہد کی ضرورت ہے۔

 آیندہ مالی سال کے بجٹ میں ستمبر میں ہونے والے آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالرز کے دوسرے جائزے کو کامیاب بنانے کی راہ ہموار کرنے کی ایک کوشش لگتی ہے۔ ایک بڑی تبدیلی یہ ہے کہ حکومت بجٹ کے مجموعی خسارے کو ملک کی کُل آمدنی (جی ڈی پی) کے 3.9 فیصد تک کم کرنا چاہتی ہے جو کہ پہلے ہدف 5.9 فیصد سے کم ہے۔

صوبے جن پر عام طور پر وفاقی حکومت کے مالی مسائل میں اضافہ کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے کیونکہ انھیں این ایف سی معاہدے کے تحت رقم کا بڑا حصہ ملتا ہے، اب وہ تقریباً 15 کھرب روپے کا کیش سرپلس فراہم کریں گے جوکہ گزشتہ مالی سال کے طے شدہ ہدف 10 کھرب روپے سے 50 فیصد زیادہ ہے تاکہ قومی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے۔ اگرچہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس میں کچھ ریلیف بھی دیا ہے لیکن وہ ایسا کرسکتی تھی، کیونکہ اس نے قرض کی ادائیگی میں 10 کھرب روپے کی بچت کی۔ یہ بچت اس لیے ہوئی، کیونکہ ملک میں شرحِ سود گزشتہ سال کم ہوئی ہے۔

بجٹ کسٹم اور درآمدی ٹیکس میں دیرینہ تبدیلیوں کی نوید سناتا ہے ،امید ہے کہ ان تبدیلیوں کا مقصد اگلے پانچ سالوں میں بعض صنعتوں کو حاصل استثنیٰ کو آہستہ آہستہ روکنا ہے جو حکومتی تعاون سے غیر منصفانہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔ بجٹ میں نان فائلرزکی زیادہ سے زیادہ تعداد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی ہے اور ایسا ایک خاص رقم سے زائد شیئرز خریدنے یا 850 سی سی سے بڑے انجن والی کاریں خریدنے جیسی چیزوں پر حد لگا کر کیا گیا ہے جہاں ٹیکس نہ دینے پر نان فائلرزکو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس کے علاوہ بجٹ میں سابقہ فاٹا اور پاٹا کے علاقوں میں کاروبار کے لیے سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں جن کا مقصد پورے ملک میں قوانین کو منصفانہ بنانا ہے، اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ نے کمپلائنٹ کارپوریٹ سیکٹر کی مشکلات کے بارے میں بات کی لیکن ان کی بجٹ تقریر غیر مساوی کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی، جو سرمایہ کاری اور برآمدات کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

 بجٹ میں قرضوں کی ادائیگی کے لیے بڑا حصہ مختص کرنے کی بڑی وجہ ملک کا آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہے، کیونکہ آئی ایم ایف اسٹیٹ بینک کو شرح سود بڑھانے کا کہتا ہے، جو اس وقت تقریباً 11 فیصد ہے اور یہی شرح سود قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ قومی خزانے پر بڑھا رہی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق وہ ممالک جو آئی ایم ایف کے محتاج نہیں، وہاں شرح سود 5 فیصد سے بھی کم ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت نے پانی اور بجلی کے شعبے کے بجٹ میں بھی 41 فیصد کمی کی تجویز دی ہے، جو پہلے 104 ارب روپے تھا۔

اسے مزید کم کردیا گیا ہے جس سے دیا میر بھاشا ڈیم جیسے پانی کے اہم منصوبے متاثر ہونگے موجودہ حالات میں اس منصوبے کی تکمیل میں بیس سال لگ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ملک کے ہر کونے سے پانی کی قلت اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور عوام کو ان دونوں معاملات میں ریلیف صرف اور صرف بڑے ڈیموں کی تکمیل سے ہی ممکن ہے کیونکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سب سے سستی بجلی صرف پانی کے ذریعے بنائی جاتی ہے۔ تاہم حکومت بڑے آبی منصوبوں کے فنڈز میں ہی کٹوتیاں کرتی دکھائی دیتی ہے۔گزشتہ چند سالوں کے معاشی چیلنجزکے باعث قومی ترقیاتی بجٹ میں مسلسل کمی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

ترقیاتی فنڈز میں وسعت وقت کی اہم ضرورت تو ہے اور عوام بھی صحت، تعلیم، پانی، بجلی اور انفرا اسٹرکچر میں بہتری کی توقع رکھتے ہیں لیکن اس وقت وفاقی بجٹ کا نصف سے زائد حصہ قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو رہا ہے اور موجودہ وسائل میں ترقیاتی بجٹ کو مینج کرنا انتہائی مشکل ہوچکا ہے نیز پاکستان جس طرح کے معاشی مسائل کا شکار ہے اور قرضوں کا بوجھ ہے۔ بدقسمتی سے اس میں کمی آنے کے بجائے یہ مسلسل بڑھ رہے ہیں، جس کے باعث حکومت کے پاس عوام کی فلاح کے فیصلے کرنے کی گنجائش کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔

ایف بی آرکی طرف سے ٹیکس وصولی میں ایک ٹریلین روپے کی کمی پر بھی تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فائلر اور نان فائلر اب بھی ٹیکس چوری میں ملوث ہیں، جن کی مالیت 1.3 ٹریلین روپے ہے، حکومت جو ترقیاتی بجٹ بناتی ہے اس پر پوری طرح عمل نہیں ہوپاتا۔ کیش لیس معیشت کے نفاذ میں مشکلات کے علاوہ تنخواہ دار اور کم آمدنی والے طبقوں کو ریلیف دینے میں بھی مشکلات حائل ہیں۔ یہ حقیقت کہ تنخواہ دار افراد نے گزشتہ سال کے مقابلے اس سال کے پہلے 10 مہینوں میں 52 فیصد زیادہ ٹیکس 437 بلین روپے کی ادائیگی کی ہے اور یہ کہ مینوفیکچرنگ انڈسٹری، جو جی ڈی پی کا 18 فیصد بنتی ہے، کل ٹیکس ریونیو میں تقریبا 60 فیصد حصہ ڈال رہی ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا ٹیکس ڈھانچہ کتنا منصفانہ اور غیر منصفانہ ہے۔

تنخواہ دار طبقے کے لیے موجودہ ٹیکس پالیسیوں کو معقول بنانے کی اشد ضرورت ہے، وہ معاشی ترقی اور سماجی ترقی میں خاطر خواہ حصہ ڈالتے ہیں اور ہمیں رجعت پسند اور غیر منصفانہ ٹیکس اقدامات سے ان کی پیداواری صلاحیت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ ڈیجیٹل معیشت وہ نظام ہے جس میں لین دین الیکٹرانک ذرایع جیسے کہ ڈیبٹ/ کریڈٹ کارڈز، موبائل ایپس، کیو آرکوڈز، اور آن لائن بینکنگ کے ذریعے ہوتے ہیں۔ یہ نظام نہ صرف تیز اور محفوظ ہے بلکہ مالیاتی شفافیت، دستاویزی معیشت اور عالمی معاشی ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے، جب کہ پاکستان جیسے ممالک میں نقدی پر مبنی معیشت کی وجہ سے ٹیکس نیٹ محدود رہتا ہے، جو قومی خزانے پر بوجھ بنتا ہے۔ نقدی کا استعمال لین دین کے عمل کو سست کرتا ہے اور کاروباری اداروں کے لیے نقدی کے انتظام کے اخراجات بڑھاتا ہے۔

عالمی سطح پر کئی ممالک نے ڈیجیٹل معیشت کو اپنا کر نمایاں فوائد حاصل کیے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، سویڈن میں 98 فیصد لین دین ڈیجیٹل ذرایع سے ہوتے ہیں، جس نے غیر رسمی معیشت کو تقریباً ختم کردیا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2025۔ 26 کے بجٹ میں نقدی پر مبنی لین دین پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ایک اہم قدم ہے۔ اس کے تحت پٹرول پمپس پر نقد ادائیگی پر فی لیٹر 3 روپے اضافی چارج اور دیگر نقد خریداریوں پر 2 فیصد اضافی جنرل سیلز ٹیکس شامل کیا جا رہا ہے۔

یہ پالیسی صارفین کو ڈیجیٹل ادائیگیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک معاشی ترغیب ہے۔ اس پالیسی کے تحت لین دین کا ایک منظم اور قابلِ دسترس ڈیجیٹل ریکارڈ تشکیل پائے گا، جو ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور کالے دھن کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی صارفین کی مالی عادات میں بھی تبدیلی آئے گی،کیونکہ اضافی ٹیکس انھیں ڈیجیٹل ادائیگیوں کی طرف راغب کرے گا۔ یہ نہ صرف سہولت بخش ثابت ہوگا بلکہ مالی نظم و ضبط اور جوابدہی کے کلچرکو بھی فروغ دے گا۔ ڈیجیٹل معیشت کو اپنانے سے پاکستان عالمی مالیاتی نظام کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکے گا، جو کہ غیر ملکی سرمایہ کاری، بین الاقوامی تجارت اور عالمی اعتماد کے لیے ازحد ضروری ہے۔

ڈیجیٹل معیشت پاکستان کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ نقدی پر ٹیکس لگانا ایک اہم قدم ہے، لیکن اسے کامیاب بنانے کے لیے جامع پالیسی، عوامی آگاہی، اور انفرا اسٹرکچرکی ترقی ضروری ہے۔ عالمی مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ ڈیجیٹل معیشت مالیاتی شفافیت، شمولیت اور معاشی ترقی کا باعث بنتی ہے، اگر پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھائے، تو یہ نہ صرف معاشی نظم و ضبط کو فروغ دے گا بلکہ عالمی معاشی منظرنامے میں ایک مضبوط مقام بھی حاصل کرے گا۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات