لاہور:
ماہرمعیشت خرم حسین نے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ میں ٹیکس کا ہدف کافی بڑھا ہے جس میں زیادہ بوجھ انکم ٹیکس اور سیلزٹیکس پرا رہا ہے.
انھوں نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کاروباری طبقے کے بجائے رئیل اسٹیٹ کو کافی ریلیف دیا گیا جوحیران کن ہے، تنخواہ دار طبقے کو نہ ہونے کے برابر ریلیف ملا جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے.
ماہرمعیشت ندیم الحق نے کہا کہ بجٹ میں کچھ نہیں ہے،جب تک ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہیں یہ ان کا اور سٹی بینک کا تیارکردہ بجٹ ہے حالانکہ گذشتہ دس برسوں سے ٹھوس اقدام کی ضرورت ہے، کوئی خرچہ کم کیا جائے، اٹھارویں ترمیم کے بعد بیس ،پچیس بلکہ پچاس وزارتیں ختم کی جائیں، ہزاروں فضول ادارے ختم کیے جاتے،دس ،بیس لاکھ ملازمین فارغ کئے جاتے مگرہمارے سیاستدانوں میں دم ہے نہ عقل ہے.
ماہر معیشت علی حسنین نے کہاکہ رئیل اسٹیٹ غیر پیداواری شعبہ ہے جس میں سرمایہ کاری لاک ہوجاتی ہے اس پر فیاضی نہ دکھائی جاتی تو بہتر تھا، مالی استحکام کیلیے اصلاحات نہیں کی گئیں،آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلے بغیر مالی خودمختاری ممکن نہیں ہے.
ماہر معیشت یوسف نذر نے کہا کہ بینکرز اور آئی ایم ایف کی سب سے زیادہ توجہ قرضوں کی واپسی پر ہوتی ہے ان کو پروا نہیں ہوتی کہ اقتصادی اصلاحات ہوں یا نہ ہوں، آئی ایم ایف اور پاکستان کے قومی مفاد میں تضاد ہے جسے سمجھنا چاہیے، دوسرا بنیادی تضاد اشرافیہ اور ملکی اقتصادی بڑھوتری کا ہے، بجٹ بنانے والے ماہر معیشت نہیں بلکہ کمرشل بینکر تھے، ان کے ہوتے ہوئے مالیاتی اصلاحات کی توقع خوش فہمی ہے۔