39 C
Lahore
Thursday, June 12, 2025
ہومغزہ لہو لہواقتصادی جائزہ رپورٹ اور عام کاشتکار

اقتصادی جائزہ رپورٹ اور عام کاشتکار


گزشتہ دنوں حکومتِ پاکستان نے اقتصادی جائزہ رپورٹ یعنی ’’پاکستان اکنامک سروے 2024-25‘‘ جاری کی، جس پر مختلف ماہرین رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔

پاکستان کی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا اس سروے میں شامل زرعی اعداد و شمار اور تجزیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ اکنامک سروے ہمیں کیا بتاتا ہے اور کیا نہیں بتاتا؟

اکنامک سروے میں عمومی طور پر زرعی شعبے سے متعلق اہم معلومات فراہم کی جاتی ہیں، جن میں مختلف فصلات کے زیر کاشت رقبے کی تفصیل شامل ہوتی ہے کہ کون سی فصل کتنے رقبے پر کاشت کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کل پیداوار کتنی حاصل ہوئی اور فی ایکڑ اوسط پیداوار میں گزشتہ سال کی نسبت کیا تبدیلی رونما ہوئی۔

سروے میں لائیو اسٹاک یعنی مال مویشی کی افزائش میں ہونے والے اضافے یا کمی کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ زرعی مداخل جیسے بیج، کھاد، پانی اور مشینری کی دستیابی کی صورت حال کا تجزیہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، حکومت کی جانب سے شروع کی گئی زرعی اسکیموں کی پیشرفت اور ان کے اثرات کا احاطہ بھی کیا جاتا ہے۔ اگر کسی فصل کی پیداوار میں اضافہ یا کمی واقع ہو، تو اس کے اسباب مثلاً موسمی حالات، مداخل کی دستیابی یا قیمتوں میں رد و بدل، بھی سروے میں بیان کیے جاتے ہیں۔

حال ہی میں جاری کیے گئے اقتصادی سروے کے مطابق، رواں مالی سال کے دوران ملک کی پانچ اہم فصلوں کی مجموعی پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جو ساڑھے تیرہ فیصد تک جا پہنچی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، کپاس کی فصل اس سال بری طرح متاثر ہوئی، جس کی پیداوار 30 فیصد سے بھی کم رہی۔ گنے کی فصل میں بھی کمی دیکھی گئی، اسی طرح چاول کی فصل میں بھی تقریباً ڈیڑھ فیصد کمی آئی ۔ مکئی کی فصل کو بھی شدید نقصان پہنچا اور اس کی پیداوار 15 فیصد گھٹ گئی۔ گندم، جو کہ ملک کی سب سے اہم غذائی فصل ہے، اس کی پیداوار میں بھی تقریباً نو فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔ البتہ لائیو اسٹاک کے شعبے نے 4 فی صد سے زائد شرح سے ترقی کی۔ اس طرح مجموعی طور پر زراعت کی پیداواری شرح 0.58 فیصد رہی۔

فصلوں کی پیداوار سے متعلق یہ تمام معلومات بھی اہم ہیں۔ لیکن ان سے دیہی معیشت کے حقیقی اثرات کا مکمل اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ کیونکہ اکنامک سروے یہ نہیں بتاتا کہ اگر کسی فصل کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے تو کیا اس سے کاشتکار کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے؟ مثال کے طور پر کسی کسان کی گندم کی پیداوار 40 من سے بڑھ کر 50 من ہو گئی، لیکن اگر گندم کا نرخ 4000 روپے فی من سے گر کر 2000 روپے فی من ہو گیا، تو پیداوار بڑھنے کے باوجود کسان کی آمدنی کم ہوگئی۔

رواں سال بھی رپورٹ کے مطابق زراعت میں مجموعی طور پر 0.58 فیصد ترقی دکھائی گئی ہے، لیکن جب ہم دیہی علاقوں میں کسان کی حالت دیکھتے ہیں تو وہ شدید مالی خسارے اور غیر یقینی کا شکار نظر آتا ہے۔

گزشتہ سال حکومت نے گندم کی خریداری سے دستبرداری اختیار کی۔ بعض حکومتی حلقے اسے پالیسی کا حصہ قرار دیتے ہیں، لیکن کاشتکار کی سطح پر اس کے منفی اثرات نمایاں ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس طرح کاشت کار گندم کے زیر کاشت رقبے کو کم کرکے متبادل فصلیں اگائے گا جن کے اسے مناسب دام ملیں گے۔

لیکن ایک منافع بخش متبادل فصل کا انتخاب کئی عوامل پر منحصر ہوتا ہے، جیسے کہ مقامی آب و ہوا، مٹی کی قسم، پانی کی دستیابی، اور سب سے اہم، مارکیٹ میں اس کی طلب۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ آیا وہ فصل مقامی مارکیٹ میں خریدی جائے گی یا پھر بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی مانگ زیادہ ہے۔ بہت سی ایسی فصلیں ہیں جو روایتی فصلوں کی نسبت زیادہ منافع دے سکتی ہیں لیکن اس کے لیے کسانوں کو بروقت اور درست معلومات فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انہیں یہ جاننا چاہیے کہ کون سی فصل ان کے علاقے کے لیے موزوں ہے، اس کی کاشت کے طریقے کیا ہیں، اور اسے کہاں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ 

کاشتکاروں نے رواں سال گندم کے متبادل سرسوں، رایا، سبزیاں اور پیاز اگائے لیکن منڈی میں سبزیوں اور پیاز کی قیمتیں اس قدر گرگئیں کہ کسان کی لاگت بھی پوری نہ ہو سکی۔

دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اسی طرح زرعی اجناس بھی عالمی سطح پر منسلک ہوچکی ہیں۔ اگر پاکستان ایک جنس درآمد کرتا ہے اور دوسری جنس برآمد کر لیتا ہے اور اس عمل سے کاشتکار کو اگر مناسب دام مل جائیں تو یہ ایک دانشمندانہ حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ اس کا براہِ راست فائدہ کاشتکار کی آمدنی کی بہتری کی صورت میں نکلتا ہے۔

کسان آج جس قدر بے یار و مددگار ہے، شاید پہلے کبھی نہ تھا۔ ایک طرف مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال، دوسری طرف حکومتی پالیسیوں کا فقدان۔ 

پاکستان میں کسانوں کی خوشحالی کو یقینی بنانے کےلیے ایک جامع حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں، سب سے پہلے ایک ایسا تحقیقی ادارہ قائم کیا جانا چاہیے جو مقامی اور بین الاقوامی منڈیوں میں زرعی اجناس کی طلب اور بدلتے ہوئے رجحانات پر گہری نظر رکھے۔ اس تحقیق کی روشنی میں، کاشتکاروں کو بروقت اور مستند رہنمائی فراہم کی جانی چاہیے تاکہ وہ روایتی فصلوں کے بجائے ان فصلوں کا انتخاب کر سکیں جو زیادہ منافع بخش ثابت ہوں۔

مزید برآں، زرعی پالیسیوں کو ملکی برآمدات کے ساتھ مربوط کرنا ازحد ضروری ہے؛ اس اقدام سے نہ صرف اضافی پیداوار کو عالمی منڈی میں فروخت کر کے قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکے گا، بلکہ کسان کو بھی اس کی محنت کا بہتر معاوضہ ملے گا۔ 
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات