ایک تجزیہ کار نے درست کہا ہے کہ پی ٹی آئی میں ہرکوئی لیڈر اور ان کا اپنا اپنا بیانیہ ہے جو بھی بانی سے مل کر آتا ہے وہ اپنا ہی بیان دیتا ہے۔ بانی کی ہمشیرہ نے جو بیان دیا تھا تجزیہ کاروں کے نزدیک وہ ایک بہن کا ذاتی بیان تھا جس کے بعد ایک وضاحت سامنے آگئی ہے کہ وہ بانی یا پارٹی کا نہیں علیمہ خان کا ذاتی بیان تھا۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے بانی سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی پاکستان کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور انھوں نے ایسے مذاکرات کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹرگوہر کا کہنا ہے کہ ’’کچھ لو،کچھ دو‘‘ پر لوگوں نے مس گائیڈ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک اور لیڈر نے اپنی چھوڑی ہے کہ ہمارے کسی سے مذاکرات نہیں چل رہے جب کہ بعض دیگر رہنماؤں نے تسلیم کیا ہے کہ مذاکرات چلتے رہتے ہیں۔ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ ایسے مذاکرات اندرون خانہ چلتے رہتے ہیں جو کھلے عام نہیں ہوتے یہ بھی درست ہے کہ پی ٹی آئی نے موجودہ حکومت کے ساتھ جو مذاکرات کیے تھے وہ خفیہ نہیں اعلانیہ تھے جن سے پی ٹی آئی کے بانی نے چلنے نہیں دیا تھا اور ختم کرا دیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں حکومت بے اختیار ہے جس سے مذاکرات کامیاب ہو ہی نہیں سکتے، اسی لیے وہ صرف بالاتروں سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں پاکستان کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر تیار ہوں کیونکہ وہی اس سلسلے میں بااختیار ہیں۔
بانی جن کو با اختیار کہہ کر جن کے لیے وہ اپنے دروازے کھلے رکھ کر مذاکرات کے لیے تیار بیٹھے ہیں وہ خفیہ ملاقاتوں پر یقین ہی نہیں رکھتے اور ملاقات کے لیے بانی کی طرف سے دی گئی درخواست تک نہیں پڑھتے اور حکومت کو بھیج کر پیغام دے دیتے ہیں کہ ہم نے بانی سے کوئی مذاکرات نہیں کرنے اس لیے ہماری بجائے حکومت سے مذاکرات کریں۔
اسٹیبلشمنٹ کے صاف جواب سے صاف ظاہر ہے کہ بانی کو صرف حکومت سے رابطہ کرنا چاہیے ہمیں مذاکرات کرنے کی کوئی ضرورت ہے ہی نہیں۔ بانی اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو الگ الگ بیان دیتے ہیں، کسی کو کچھ کہتے ہیں اور کسی کو کہتے ہیں کہ میں پاکستان کے لیے بالاتروں سے مذاکرات پر تیار ہوں جیسے ان سے بالاتروں کی طرف سے مذاکرات کے لیے کوئی درخواست کی گئی ہو، جس پر بانی آمادہ ہو کر اپنا دروازہ کھولے بیٹھے ہیں جب کہ وہ آنا ہی نہیں چاہتے۔ کوئی کہتا ہے کہ بانی پاکستان کے لیے کچھ لو کچھ دو پر تیار ہیں جس کی بیرسٹر گوہر تردید کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سزا یافتہ بانی جیل میں قید اور ان کا دروازہ باہر سے بند ہے جسے وہ خود کھول نہیں سکتے اور کہتے ہیں کہ بالاتروں کے لیے میرا دروازہ کھلا ہے جو درحقیقت کھلا نہیں، بند ہے اور بند دروازہ کھلوانے کے لیے بار بار ملاقات کی درخواستیں کی جا رہی ہیں جو ملنا ہی نہیں چاہ رہے تو ان سے ملاقات کے لیے کیوں کہا جاتا ہے کہ ان کے لیے میرا دروازہ کھلا ہے اور پاکستان کے لیے میں ان سے ملنے کو تیار ہوں مگر دوسری طرف سے کوئی جواب ہی نہیں آ رہا۔
ممکن ہے کہ دوسری طرف سے بانی سے ملنے کی کوئی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی جا رہی کہ بانی پی ٹی آئی نہ حکومت میں ہے نہ کچھ دینے کی پوزیشن میں ہے بلکہ وہ سزا یافتہ ہے جس کی رہائی کے لیے دروازہ کھولنے کا اختیار عدلیہ کے پاس ہے اور بانی ضمانت پر رہائی کے لیے رجوع بھی کر چکے ہیں اس لیے انھیں عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔
علیمہ خان کے بیانات پر خود پی ٹی آئی میں بھی تحفظات ہیں اور پارٹی رہنما ان کے بعض بیانات کی تردید کرتے ہیں اور تجزیہ کار بھی سمجھتے ہیں کہ ان کے بیانات پارٹی پالیسی نہیں بہن کے جذبات ہیں ۔ ویسے سینیٹر علی ظفر اور علیمہ خان کے بیانات میں کوئی بھی فرق نہیں ہے اور دونوں نے کچھ لو کچھ دو کے بیانات دیے ہیں۔ علیمہ خان نے یہ بھی پوچھ لیا ہے کہ وہ ہم سے چاہتے کیا ہیں؟بانی پاکستان کے لیے نہیں اپنی رہائی کے لیے بالاتروں کو کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ ملنا چاہیں مگر وہ بانی سے ملیں کیوں اور نہ انھیں کوئی ضرورت یا سیاسی مذاکرات کی خواہش ہے ان کی ضروریات صرف حکومت ہی پوری کر سکتی ہے۔
بانی کا بھی یہ حال ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، وہ اپنی باعزت رہائی بھی چاہتے ہیں اور منت اور ترلے بھی ہو رہے ہیں۔ بانی کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں لینے کے لیے جیل سے رہائی ہے۔ لو اور دو کے دلائے جانے والے بیانات این آر او ہی تو ہیں ، اب ان کے پاس صرف بالاتر رہ گئے ہیں جنھیں وہ بلاتے ہیں جو آئیں گے نہیں، اس لیے بانی کو صرف عدالتی رہائی کا ہی انتظار ہے۔