سوشل میڈیا پر الفتوں کے رنگ بکھیرنے والی ثنا یوسف دل میں ارمانوں کے انبار لیے اسلام آباد تو آئی مگر بے دردی سے قتل کر دی گئی۔
میں نے ابھی کھیلنا ہے کودنا ہے، جھومنا ہے، گانا ہے، دکھی نہیں ہونا، مسکرانا ہے، مجھے جینا ہے اسلام آباد کے حسین رنگوں کی دل افروز ترنگ کے سنگ، میں نے محبتیں بانٹنی ہیں، اپنی باتوں کے دوش پر میں شوخ و چنچل ہوں، کیونکہ میں نے ابھی جینا ہے، بہت جینا ہے۔
کچھ یہی سوچ کر چترال کی دلکش و دلفریب وادیوں سے اک پیاری، راج دلاری اور نازک اندام بچی شہر اقتدار کی دلفریب رعنائیوں میں آبسی۔
لیکن اس نازک پری کو کیا معلوم تھا کہ وہ اپنی حیات کی بہار بھرپور کو ابھی چھوئے گی بھی نہیں کہ بے رحمی سے قتل کر دی جائے گی۔
کوئی سفاک قاتل کہیں سے اٹھے گا اور اس کے نازک بدن میں بارود بھری گولیاں اتار دے گا۔
چترال کی برف زار و گل پوش وادیوں سے اسلام آباد آنے اور یہاں بسیرا کرنے والی 17 سالہ معصوم و خوبرو ثنا یوسف کی درخشاں حیات کا چراغ تاباں 2 جون کو اسلام آباد کے سیکٹر جی 13میں غروب آفتاب کے وقت بے دردی و بے خوفی سے گل کر دیا گیا۔
سوشل میڈیا پر دمکتی زندگی کی ساری تمنائیں لیے ایک پیاری بیٹی بے وقت خون میں نہا گئی، چہل پہل سے آراستہ زندگی کا پلیٹ فارم اجڑ گیا، وہ جو ہزاروں آرزوں کی سنگت میں اسلام آباد آئی تابوت میں سوئی چترال گئی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز ثناء یوسف کو گھر پر ملنے آئے ملزم نے 2 گولیاں ماریں تھیں، لاش کو پوسٹ مارٹم کےلیے پمز اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔