لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ بات یہ ہے کہ ان بے چاروں کو احتجاج کا رائٹ تو دے دیں اگر وہ کرنا چاہتے ہیں تو ان کو کرنے دیں، مولانا تو بہت اچھے آدمی ہیں،نوید صاحب کہہ رہے تھے کہ گورنمنٹ ان کو سیریس نہیں لے گی، یقین کریں گورنمنٹ بہت سیریس لے گی گورنمنٹ کے اس احتجاج کو اور اس کے بعد آپ کو یہ آنیاں اور جانیاں پھر نظر آنا شروع ہو جائیں گی،کبھی پرائم منسٹر صاحب جا رہے ہوں گے، کبھی بلاول صاحب جا رہے ہوں گے اور پھر 73 کے آئین کے تناظر میں مولانا مان جائیں گے.
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ باقی رہا پی ٹی آئی کا معاملہ ، وہ بالکل ٹھیک ہے.
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ اصل میں اس گورنمنٹ کو یہ ایڈوانٹج حاصل ہے کہ اس کو اگر مشکلات بھی پیش ہو جائیں تو اس نے ان مشکلات کو فیس نہیں کرنا، فیس کرنے والے کوئی اور لوگ ہیں، وہی فیس کر لیں گے تو حکومت کو اس حوالے سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، ابھی پاکستان اور بھارت کے درمیان جو جنگ ہوئی تھی ، وہ جو قوم ایک صف پر کھڑی ہوئی تھی ، کل کے ضمنی الیکشن کے بعد جوہے آپ نے اس صف کو ، اس پیج کو خود ہی توڑ دیا یہ نہیں کرنا چاہیے تھا.
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ مولانا فضل اپنی ہی سیاسی اسٹریٹیجی لیکر چلتے ہیں اور ان کی گیو اینڈ ٹیک کی اسٹریٹیجی ہے، اسی طرح اپنے آپ کو پولیٹیکلی ریلیونٹ رکھنے کے لیے اور کچھ نہ کچھ سیاسی مفاد گورنمنٹ سے لینے کے لیے ہم نے دیکھا ہے کہ بارہا اسی طرح کے پروٹیسٹ کیے یا پروٹیسٹ کی دھمکیاں دیں، میرے خیال میں مولانا کی اس پروٹیسٹ کی کال کو تو سیریس نہیں لینا چاہیے اور نہ ہی میرا خیال ہے کہ گورنمنٹ سیریس لے گی.
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ یہ اصول نہیں ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ساتھ ہے تو آپ سب کچھ کر سکتے ہیں اور وہ ساتھ نہیں ہے تو آپ کچھ نہیں کر سکتے، اب پی ٹی آئی کے اندر پی ٹی آئی خود ایک دوسرے کی مخالف ہے ، کسی اور کو تو ضرورت ہی نہیں ہے کچھ کرنے کی، عالیہ حمزہ نے پنجاب میں تھوڑا سا کام شروع کیا ، ان کے اندر سلمان اکرم راجہ جو سیکریٹری جنرل ہیں وہ اس کے اوپر خود آ کہ بیٹھ گئے کہ میں کمیٹی کا سربراہ ہوں.
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ پہلے مذاکرات کی بات آ رہی تھی ، اب مذاکرات نہیں احتجاج کی کال ہے جس کے بارے میں انھوں نے خود کہہ دیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے کہ جی احتجاج ہو گا۔ جب کہ ایک طرف وہ آگیا کہ اس طرح کی بات ہوئی تھی کہ لے دے کہ بات کر لی جائے تو ظاہر ہے کہ انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کر رہے ، نہ کوئی باہر سے وفد بھی آیا ہے۔