دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی نے مالیاتی نظام کو ایک نئی شکل دینے کا آغاز کر دیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس ٹیکنالوجی کو اپنے معاشی ڈھانچے میں شامل کرنے کے لیے قانون سازی اور ادارہ جاتی اصلاحات کر رہے ہیں جب کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک اس حوالے سے تذبذب کا شکار رہے ہیں۔
جیسے کہ عام طور پر ہوتا ہی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے حکمران طبقے ہر نئی تبدیلی کو بہت دیر کے ساتھ قبول کرنے پر تیار ہوتے ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں میں ایک اہم پیشرفت نے اس میدان میں پاکستان کے مستقبل کی سمت کا تعین کرنا شروع کر دیا ہے اور پاکستان بھی نئے مالیاتی دور میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے۔
کرپٹو کرنسی کیا ہے؟ اس کا مستقبل کیا ہے؟ اور حال میں یہ کتنی کامیاب جا رہی ہے؟ پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے کے لیے بھی اسے سمجھنا ضروری ہے تاکہ وہ نئے مالیاتی نظام کے تقاضوں کو بخوبی سمجھ سکیں اور اس کے ساتھ چلنے کے قابل ہو جائیں۔ یہی ترقی کا زینہ ہے۔
کرپٹو کرنسی، بلاک چین ٹیکنالوجی پر مبنی ایک غیرمرکزی (ڈی سینٹرلائزڈ) ڈیجیٹل کرنسی ہے جو حکومت یا کسی مرکزی بینک کی مداخلت سے آزاد ہوتی ہے۔ بٹ کوائن، ایتھریم اور دیگر اسی طرح کی کرنسیاں بلاک چین ٹیکنالوجی پر مبنی ہوتی ہیں۔ گو پاکستان میں اس حوالے سے ابھی قانون سازی ہونا باقی ہے۔
کرپٹو کرنسیاں اب بتدریج دنیا بھر میں مالی لین دین کا متبادل ذریعہ بنتی جا رہی ہیں، خصوصاً ان معاشروں میں جہاں روایتی مالیاتی نظام عوام کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان میں بھی کرپٹو کرنسی کی مقبولیت خاموشی سے بڑھ رہی ہے۔
ٹیکنالوجی سے وابستہ نوجوان، فری لانسرز اور بیرون ملک سے رقم حاصل کرنے والے افراد نے کرپٹو کو ایک متبادل مالیت نظام کے طور پر اپنا لیا ہے۔ پاکستان میں بھی اس کا استعمال ہو رہا ہے۔ حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 90 لاکھ افراد کرپٹو سے کسی نہ کسی سطح پر وابستہ ہیں۔ یہ تعداد پاکستان کو دنیا کے ان دس ممالک میں شامل کرتی ہے جہاں کرپٹو کو عوامی سطح پر سب سے زیادہ اپنایا جا رہا ہے۔
دوسری طرف اس حوالے سے حکومتی رویہ ابہام کا شکاررہا۔ ماضی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2018میں ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کرپٹو کرنسی کو غیرقانونی قرار دیا تھا اور مالیاتی اداروں کو اس سے وابستہ کسی بھی سروس کی فراہمی سے روک دیا تھا۔
اس پابندی کے باعث ملک میں کرپٹو سرگرمیاں غیررسمی اور غیرمحفوظ انداز میں جاری رہیں تاہم اب حکومت پاکستان کو اس کی اہمیت کا ادراک ہو گیا ہے۔ کرپٹو نہ صرف ایک حقیقت ہے بلکہ عالمی مالیاتی نظام میں اس کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں حکومت پاکستان نے اس ہفتے ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے ’’کرپٹو کونسل‘‘ کے قیام کا اعلان کیا، جس کا مقصد ملک میں ڈیجیٹل اثاثوں کے لیے پالیسی سازی، رہنمائی اور نگرانی فراہم کرنا ہے۔
اس کونسل کی سربراہی کے لیے ایک باصلاحیت نوجوان بلال بن ثاقب کو چیف ایگزیکٹو مقرر کیا گیا ہے۔کرپٹو کونسل جن اہم نکات پر کام کرے گی وہ کچھ اس طرح ہیں۔
پاکستان میں کرپٹو کرنسی سے متعلق واضح پالیسی وضع کرنا، سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنا، مقامی کرپٹو ایکسچینجز کے قیام کو فروغ دینا، عالمی اداروں سے ہم آہنگ ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنا۔
ان امور کے علاوہ بھی کرپٹو کرنسی کے معاملے میں پاکستانیوں کو کئی اور مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ کرپٹو پر واضح قانون سازی کی کمی نے سرمایہ کاروں کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔ مقامی نوجوان اور کرپٹو کے ماہرین کے برین ڈرین کو بھی روکنا ہے۔
کرپٹو کرنسی کے تجربہ کار اور اسٹارٹ اپس پاکستان میں پابندیوں کی وجہ سے بیرونِ ملک منتقل ہو رہے ہیں، انھیں روکنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس ابھرتے ہوئے مالیاتی نظام میں ہمارے پاس تربیت یافتہ افراد کی کمی نہ رہے۔
اس معاملے میں اگر حکومت سنجیدگی سے اقدامات کرے تو کرپٹو اور ’’بلاک چین ٹیکنالوجی‘‘ سے پاکستان بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ دیہی علاقے جہاں بینکنگ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں اس کی کمی کو کرپٹو کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے۔ کرپٹو کرنسی کے ذریعے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے کم لاگت اور تیز ترسیلات ممکن ہوں گی۔
کرپٹو کرنسی کے میدان میں پاکستان ابھی آغاز کی منزل پر ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ریاستی ادارے، پالیسی ساز اور سول سوسائٹی مل کر ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں۔ کرپٹو کونسل کا قیام یقینا ایک مثبت سمت کی جانب پہلا قدم ہے، آخری نہیں۔اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو پاکستان عالمی مالیاتی نظام میں بہت پیچھے رہ جائے گا۔ دنیا ڈیجیٹل مالیات کی جانب بڑھ رہی ہے اور پاکستان کو اس کا حصہ بننا ہو گا۔