29 C
Lahore
Tuesday, June 3, 2025
ہومغزہ لہو لہولاہور چڑیا گھر اور سفاری زو کیلیے جانوروں کی درآمد تاخیر کا...

لاہور چڑیا گھر اور سفاری زو کیلیے جانوروں کی درآمد تاخیر کا شکار



لاہور:

لاہور چڑیا گھر اور سفاری زو کے لیے جنوبی افریقا سے زرافے، گینڈا اور دریائی گھوڑے کی درآمد کو اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کلیئرنس نہ ملنے کے باعث پنجاب وائلڈ لائف کو ایک بار پھر مشکلات کا سامنا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل ہاتھیوں کی درآمد کا منصوبہ بھی پہلے ہی تعطل کا شکار ہے اور اب دیگر بڑے جانوروں کی آمد بھی غیر یقینی ہوچکی ہے۔ دوسری طرف پنجاب وائلڈ لائف حکام پرامید ہیں کہ یہ جانور جلد پاکستان لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

لاہور چڑیا گھر اور سفاری زو کےلیے اندرون اور بیرون ملک سے کئی جانور اور پرندے خریدے جاچکے ہیں تاہم ابھی تک کئی بڑے جانوروں کی درآمد تاخیر کا شکار ہے۔ جن میں 12 زرافے، جن میں سے 9 لاہور سفاری زو اور تین لاہور چڑیا گھر کےلیے، تین گینڈے ایک لاہور چڑیا گھر اور ایک جوڑا لاہور سفاری زو کےلیے جبکہ ایک نر دریائی گھوڑا لاہور چڑیاگھر کے لیے اہم ہیں۔

ری ویپنگ پروجیکٹ کے ڈائریکٹر مدثر حسن نے بتایا کہ وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی طرف سے ہاتھیوں کے علاوہ دیگر جانوروں جن میں گینڈے، دریائی گھوڑے، زرافے، نیالا ہرن اور زیبرے درآمد کرنے کےلیے این او سی مل چکا ہے لیکن اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ان جانوروں کو جنوبی افریقا سے درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کے حکام نے ایکسپریس نیوز کو بتایا  کہ ’’جنوبی افریقا سے جو جانور درآمد کیے جا رہے ہیں، اُن کے ہیلتھ سرٹیفکیٹس کا بغور جائزہ لیا جارہا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آیا وہ پاکستان کی امپورٹ ریگولیشنز پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ حکام کے مطابق اگر موجودہ سرٹیفکیٹس پاکستان کی ضروریات کے مطابق نہ ہوئے، تو درآمد کنندگان سے اضافی تصدیق طلب کی جائے گی۔‘‘ ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی بیماری پاکستان میں داخل نہ ہو۔ یہ مکمل طور پر ایک پروسیجرل عمل ہے۔

حکام کے مطابق جنوبی افریقا سمیت بعض دیگر افریقی ممالک میں فٹ اینڈ ماؤتھ ڈزیز (ایف ایم ڈی) کا ایسا وائرس پایا جاتا ہے جو ابھی تک پاکستان میں نہیں ہے، حکام کو خدشہ ہے کہ اگر وہ وائرس پاکستان پہنچ گیا تو ہمارے یہاں لائیو اسٹاک کو متاثر کرسکتا ہے، اس لیے کوئی رسک نہیں لیا جاسکتا۔

ذرائع کے مطابق، فی الوقت دریائی گھوڑا، گینڈا اور زرافہ سمیت دیگر جانوروں کی درآمد پر عارضی پابندی عائد ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ صرف فٹ اینڈ ماؤتھ بیماری کے پیشِ نظر احتیاطی تدبیر کے طور پر لیا گیا ہے۔

کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کے حکام نے پنجاب وائلڈ لائف کو مشورہ دیا ہے کہ یہ جانور کسی دوسرے ملک سے درآمد کرلیں۔جہاں ایف ایم ڈی کی وبا نہیں ہے تاہم مدثر حسن کہتے ہیں کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی تجویز پرعمل درآمد اتنا آسان نہیں کیونکہ دوسرے ممالک میں اول تو یہ جانور موجود نہیں ہیں، اور جن ممالک میں ہیں وہاں یہ سرپلس نہیں ہیں۔ دوسرا مسئلہ ان جانوروں کی ٹرانسپوٹیشن کا ہے۔ ساؤتھ افریقا کے علاوہ دیگر ممالک میں ان جانوروں کےلیے کارگو جہاز میسر نہیں۔

انہوں نے کہا کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جانور پاکستان لائے جانے سے پہلے ساؤتھ افریقا میں کورنٹائن کے مرحلے سے گزریں گے اور پھر پاکستان درآمد کے بعد ان کو 15 دن سے ایک ماہ تک کےلیے کورنٹائن میں رکھ کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایف ایم ڈی کے جس وائرس کی بات کی جارہی ہے وہ ابھی تک گینڈے اور دریائی گھوڑے میں رپورٹ ہی نہیں ہوا ہے۔ پھر سب سے اہم یہ کہ ان جانوروں کو ہم نے چڑیاگھر اور سفاری پارک میں رکھنا ہے جہاں لائیو اسٹاک کے ساتھ ان جانوروں کے ملاپ کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔

پنجاب وائلڈ لائف اور اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کے موقف اپنی جگہ ہیں لیکن اس بارے میں ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی نمائندہ ڈاکٹر عظمیٰ خان کہتی ہیں چڑیا گھر اور سفاری پارک کےلیے جانور کسی چڑیا گھر سے امپورٹ کرنا چاہیں۔ جنوبی افریقہ کے جن ممالک سے جانور درآمد کیے جاتے ہیں وہاں سے زیادہ تر وائلڈ جانور فراہم کیے جاتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ پہچان مشکل ہوتی ہے کہ درآمد کیے گئے جانور وائلڈ ہیں یا کیپٹو ہیں۔

ڈاکٹر عظمیٰ خان کہتی ہیں وہ اس حق میں ہیں کہ ہمیں قوانین کا احترام اور ان پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔ کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی تجویز کے مطابق اگر کسی دوسرے ملک سے جانور لائے جاسکتے ہیں وہاں کے کسی چڑیا گھر، سفاری یا پھر وائلڈ بریڈنگ فارم سے جانور منگوانا زیادہ بہتر ہے کیونکہ ایسے جانوروں کو یہاں اسیری میں رکھنا آسان ہوتا ہے۔ جبکہ وائلڈ اینیملز کو جب اسیری میں رکھا جاتا ہے تو وہ اسٹریس میں چلے جاتے ہیں اور بیمار ہوجاتے ہیں۔

دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر موجودہ مالی سال کے اندر یہ جانور درآمد نہیں کیے جاتے تو ان کےلیے مختص فنڈز قانون کے مطابق واپس ہوجائیں گے لیکن  ڈائریکٹر پروجیکٹ مدثر حسن پُرامید ہیں کہ وہ یہ جانور پاکستان لانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور فنڈز واپس نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا جانوروں کی درآمد کے منصوبے میں توسیع پر مشاورت ہورہی ہے۔ وہ اس بارے میں کچھ واضح طور پر تو نہیں کہہ سکتے لیکن بہت جلد عوام کو خوشخبری دیں گے۔

واضح رہے کہ لاہور چڑیا گھر اور سفاری پارک کی  ری ویپنگ کا منصوبہ 2023 میں نگران حکومت نے شروع کیا تھا، اس منصوبے کےلیے تقریباً 5 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات