اسلام آباد:
کمرشل بینکوں نے غیر ملکی کرنسی کی محدود دستیابی کی وجہ سے درآمدات سے متعلق ادائیگیوں میں ایک بار پھر تاخیر شروع کر دی ہے۔ جون کے آخر سے قبل بڑے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی زر مبادلہ ذخائر کو ڈبل ڈیجیٹ میں رکھنے کی شرط پر عمل بھی جاری رکھنا ہے۔
متعدد بینکرز کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت کے مطابق یہ صورتحال مرکزی بینک کو ضمانت دیتی ہے کہ وہ یا تو مارکیٹوں سے غیر ملکی کرنسی کی خریداری کو مکمل طور پر روک دے یا ڈالر کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے اس میں زبردست کمی کرے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ہفتے کے روز اس معاملے پر کوئی سرکاری موقف نہیں دیا۔ بینکنگ اور مارکیٹ کے ذرائع نے ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کو بتایا کہ کچھ بڑے اور چھوٹے بینک درآمدات سے متعلق ادائیگیوں میں دو سے تین ہفتوں تک تاخیر کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: پیٹرولیم سیکٹر کا درآمدی بل 1750 ارب ہے جسے کم کرنا بڑا چیلنج ہے وزارت توانائی
بینک کچھ بڑے درآمد کنندگان کو لیٹر آف کریڈٹس کی کلیئرنس کے لیے انٹربینک سے زیادہ شرحوں پر ڈالر بھی فراہم کر رہے تھے۔ اس صورتحال کی وجہ سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان ڈالر کی قیمت کا فرق وسیع ہونا شروع ہوگیا۔
بینکنگ اور کرنسی مارکیٹ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انٹربینک ریٹ 282 روپے فی ڈالر سے زائد تھا جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 285 روپے کے قریب مل رہا تھا۔ ایک نجی بینک کے ایک سینئر ایگزیکٹو نے کہا ہے کہ 2022 کے بحران کے مقابلے میں صورتحال زیادہ خراب نہیں ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ مارکیٹ میں قیاس ارائیوں سے بچنے کے لیے مرکزی بینک نوٹس لے۔
متعلقہ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مقامی کرنسی اوپن اور انٹربینک دونوں بازاروں میں دباؤ میں آئی۔ لیکن یہ ایک عارضی رجحان ہے اور جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ پاکستان سٹیٹ آئل اور پاک عرب ریفائنری لمیٹڈ کو بھی اپنی درآمدات کی ادائیگی کے لیے ڈالر کی صحیح قیمت حاصل کرنے میں مسائل کا سامنا ہے۔
ذرائع نے بتایا پی ایس او نے پچھلے معاہدے کے مقابلے میں اپنی تازہ ترین درآمدی ادائیگی کے لیے تقریباً 3 روپے زیادہ قیمت ادا کی۔ اس سے صارفین کے لیے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ واضح رہے پاکستان اگلے ماہ چین کو 2.4 بلین ڈالر کے غیر ملکی تجارتی قرضوں کی ادائیگی کرنے والا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان پٹرولیم گروپ کا درآمدی بل نئی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا
اس کے علاوہ کچھ دیگر کثیر الجہتی قرض دہندگان کو بھی ادائیگیاں کرنا ہیں۔ اس وقت زرمبادلہ ذخائر 11.5 بلین ڈالر ہیں۔ زر مبادلہ ذخائر کو ڈبل ڈیجیٹ میں رکھتے ہوئے یہ ذخائر ادائیگیوں کے لیے ناکافی ہیں۔ آئی ایم ایف نے جون کے آخر تک کے نیٹ انٹرنیشنل ریزرو (این آئی آر) کے ہدف کو مزید سخت کر کے منفی 7.5 بلین ڈالر کر دیا جو گزشتہ سال ستمبر میں طے شدہ ہدف کے مقابلے میں 1.1 بلین ڈالر کی مزید سختی ہے۔
ایک اور بینک کے سینئر ایگزیکٹو نے بتایا کہ برآمدات اور ترسیلات زر درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن چیلنج مالیاتی اکاؤنٹ تھا جو شرح مبادلہ پر دباؤ ڈال رہا تھا۔ مرکزی بینک کو مارکیٹ کے حالات کو آسان بنانے کے لیے چند ہفتوں تک ڈالر نہیں خریدنا چاہیے۔
مرکزی بینک کے گورنر علی جمیل نے چند ماہ قبل کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے ذخائر کی تعمیر کے لیے 2024 میں مقامی مارکیٹ سے 9 بلین ڈالر سے زیادہ خریدے تھے۔ سٹیٹ بینک کے ترجمان نے روپے اور ڈالر کی برابری پر حالیہ دباؤ کی وجوہات اور اسی طرح درآمدات سے متعلق موخر ادائیگیوں کی وجہ سے ایک ارب ڈالر کے التوا ہونے کی بابت سوال کا جواب دینے سے بھی گریز کیا۔