اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف نے پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف آگاہی مہم کا آغاز کردیا جس میں معروف اداکارہ اور یونیسیف کی قومی سفیر برائے حقوقِ اطفال صبا قمر نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
اس ویڈیو مہم کا مقصد معاشرے میں کم عمری کی شادیوں کے مضر اثرات کو اُجاگر کرنا اور اس رواج کے خاتمے کےلیے مشترکہ اقدام کی ضرورت پر زور دینا ہے۔
صبا قمر نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ پاکستان میں کسی بھی بچے کو ایسی شادی یا مستقبل پر مجبور کیوں کیا جائے جسے وہ خود نہ چُنے؟ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق کے سنگین خدشات کے ہوتے ہوئے، ہمیں یہ سب کچھ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال میں نے سندھ کے شہر سجاول میں کم عمری کی شادیوں کے اثرات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور یونیسیف کے کام کا مثبت اثر محسوس کیا۔ وہاں میں ایک 14 سالہ باہمت لڑکی سے ملی جس نے اپنے گاؤں میں 3 شادیاں رکوا کر مثال قائم کی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اس مہم کا حصہ بن کر فخر محسوس کرتی ہوں، ان تمام لڑکیوں کےلیے جن کی آوازیں بند دروازوں کے پیچھے دب جاتی ہیں۔
پاکستان دنیا میں کم عمری کی شادیوں سے متعلق چھٹے نمبر پر ہے، جہاں تقریباً 1 کروڑ 90 لاکھ لڑکیوں کی 18 سال کی عمر سے پہلے شادی ہو چکی ہے۔
ان میں سے تقریباً نصف اپنی 18ویں سالگرہ سے پہلے ہی ماں بن جاتی ہیں، جو ان کی صحت اور بچے دونوں کےلیے خطرناک ہے۔
یونیسیف پاکستان کے نمائندے عبداللّٰہ فاضل نے کہا کہ کم عمری کی شادی غربت سے جڑی ہوتی ہے، لیکن اس کی جڑیں صنفی تفریق اور سماجی توقعات میں بھی گہری پیوست ہیں، ہمیں قانون سازی، اس پر عملدرآمد اور ثقافتی رویوں میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے، پاکستان کیسے کامیاب ہو سکتا ہے جب ٹیم کا آدھا حصہ میدان میں ہی نہ ہو؟
عبداللّٰہ فاضل کا کہنا تھا کہ صبا قمر بچوں کی ایک پُراثر آواز ہیں، ہمیں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر فخر ہے تاکہ ان چیلنجز کو اُجاگر کیا جا سکے جو بہت سے بچے جھیل رہے ہیں اور ایک ایسا مستقبل ممکن بنایا جا سکے جہاں ہر بچہ خاص طور پر ہر بچی سیکھے، پروان چڑھے اور کامیاب ہو۔
یہ مہم یونیسیف کی دیگر اقوام متحدہ کے اداروں جیسے یو این ایف پی اے، یو این ویمن اور حکومتی شراکت داروں کے تعاون سے جاری وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔