حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور بھارت کی مختلف محاذ پر پسپائی کے بعد یہ امر یقینی تھا کہ پاکستان میں آنے والے عرصے میں پراکسی جنگ جیسے امور کو زیادہ بالادستی حاصل ہوگی۔ بھارت پراکسی جنگ کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار زیادہ شدت کے ساتھ استعمال کرے گا تاکہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کر سکے۔
بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خواہ اس کا خصوصی ٹارگٹ ہوں گے۔ بلوچستان میں بی ایل اے اور خیبر پختونخوا میں کالعدم تحریک طالبان یعنی ٹی ٹی پی کی افغانستان کے ذریعے سہولت کاری اور معاونت کے ساتھ وہ اپنی پہلے سے جاری جنگ میں مزید شدت پیدا کرے گا۔
خضدار میں اسکول بس سانحہ ظاہر کرتا ہے دہشت گردی کا یہ کھیل آسانی سے نہیں رکے گا۔ آئی ایس پی آر کے بقول اس دہشت گردی کی منصوبہ بندی بھارت میں کی گئی اور وہ یہ حملہ اپنی پراکسی تنظیموں سے کروایا۔ خیبر پختون خوا میںہو رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ضرور ہوئی ہے مگر جنگ کے خطرات بدستور موجود ہیں، دہشت گردی کے واقعات میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
معصوم نہتے شہریوں اور بالخصوص معصوم بچوں کو نشانہ بنانا گھناؤنا فعل ہی ہوسکتا ہے اور اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہوگی۔بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے حملوں سے کئی بے گناہ شہری اپنی جانوں سے گئے ہیں۔بالخصوص غیر بلوچیوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کرنا زیادہ سنجیدہ اور تشویش کے پہلو کی عکاسی کرتا ہے ۔
بلوچستان کے وزیر اعلی سرفراز بگتی کے بقول ہمارے پاس یہ انٹیلی جنس رپورٹس موجود تھیں کہ بھارت کی پراکسی جنگ بلوچستان میں ہوسکتی ہے۔پاکستان کافی عرصہ سے کہہ رہا ہے کہ اس کے پاس پراکسی جنگ کے تناظر میں بلوچستان پر بھارت کے خلاف کافی مضبوط شواہد موجود ہیں ۔ اب جب کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو بھارت پر نہ صرف نفسیاتی برتری حاصل ہے بلکہ ہم سفارتی محاذ پر بھی برتری حاصل کیے ہوئے ہیں ۔
اس لیے جعفر آباد ایکسپریس کا واقعہ ہو یا خضدار میں ہونے والی دہشت گردی یا مسلسل کئی عرصے سے بلوچستان کے علیحدگی پسند افراد یا بی ایل اے کی دہشت گردی پر مبنی کارروائیوں کے جو بھی شواہد یا حقایق ثبوت کی صورت میں موجود ہیں اسے ہمیں عالمی دنیا میں موجود سفارتی محاذ پر پیش کرکے بھارت کو بڑے دباؤ میں لانا ہوگا۔کیونکہ بھارت نے پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان پر الزام لگایا ہمیں ان کی حکمت عملی سے گریز کرکے ثبوت کے ساتھ بھارت کے خلاف عالمی دنیا میں جانا ہوگا تاکہ ہم بہتر طور پر اپنا مقدمہ عالمی دنیا میں لڑسکیں ۔
یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ بلوچستان میں حالات سنگین ہیں ۔ اس بحران کا حقیقی ادراک کرتے ہوئے ہمیں خود بھی مسائل کے حل کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔اس مسئلہ کے حل کے لیے ہمیں لانگ ٹرم ،مڈ ٹرم اور شارٹ ٹرم کی بنیادوں پر قومی اتفاق رائے کے ساتھ موثر حکمت عملی اختیار کرنا ہوں گی۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم داخلی سطح کے معاملات میں خلیج پیدا نہ کریں اور دشمن کو موقع نہ دیں کہ وہ ہماری داخلی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا سکے۔ بلوچستان میں موجود سیاسی لوگوں کے ساتھ معاملات طے کرنے ہوں گے۔
بلوچستان کا مسئلہ سیاسی تنہائی میں حل نہیں ہوگا۔بالخصوص ایسے موقع پر جب یہ خطرات موجود ہیں کہ بھارت بلوچستان میں اپنی مداخلت یا پراکسی جنگ کو جاری رکھنا چاہتا ہے تو ہمیں زیادہ خبردار رہنا ہوگا اور بلوچستان کی نگرانی اور گورننس سے جڑے تمام معاملات پر موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے داخلی بیانیہ کو بھی درست کرنا ہوگا۔بھارت سے آنے والے دنوں میں ہمارے خطرات کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھنے کے امکانات ہیں ۔فغانستان کے معاملے میں بھی بھارت ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے اور ٹی ٹی پی کی سرپرستی پاکستان کی مخالفت میں اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔
افغانستان سے جو ہمارے معاملات خراب ہیں یا جو کردار پاکستان کی مخالفت میں ٹی ٹی پی ادا کررہی ہے وہ بھارت کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔اس لیے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں بھارت کی پراکسی کو کمزور کرنے کے لیے ہمیں افغانستان سے اپنے تعلقات میں بہتری بھی لانا ہوگی اور ٹی ٹی پی کا بھی علاج تلاش کرنا ہوگا۔
ہمیں سفارتی محاذ پر بھارت کے کردار کو محض بلوچستان تک محدود رکھ کر دنیا کے سامنے پیش نہیں کرنا بلکہ افغانستان اور ٹی ٹی پی کے معاملے میں بھی بھارت کی تصویر اور اس کے دوہرے معیارات کو عالمی دنیا میں پوری شدت ،ٹھوس دلیل ،منطق اور شواہد کے ساتھ پیش کرنا ہوگا۔مسئلہ کا حل جذباتیت پر مبنی پالیسی یا محض ردعمل پر مبنی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمارے عمل اور اقدام سمیت حکمت عملیوں میں بھارت کے مقابلے میں زیادہ وسعت اور گہرائی ہونی چاہیے۔پاکستان میں موجود عالمی دنیا کے سفیروں کو بریف کرنا ہوگا کہ موجودہ حالات میں بھارت کا ایجنڈا محض پاکستان مخالفت کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ خطہ سمیت عالمی دنیا کے لیے بھی خطرناک رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے۔
پاکستان جو سیاسی اور معاشی بنیادوں پر آگے بڑھنا چاہتا ہے یا خود کو اس علاقائی سیاست میں مستحکم کرنا چاہتا ہے تو اسے سیاسی و سفارتی بنیادوں پر پاکستان کی داخلی ،علاقائی اور عالمی سطح پر ایک بڑی سیاسی جنگ لڑنا ہوگی اور یہ جنگ اسی بنیاد پر لڑی جاسکتی ہے جب ہم خود بھی اپنی داخلی سطح پر مضبوط پوزیشن رکھ سکیں گے۔سیاسی عدم استحکام ہمارا بڑا چیلنج ہے اور اس کو نظرانداز کرکے یا غیر اہم سمجھ کر ہماری آگے بڑھنے کی حکمت عملی ہمیں کوئی موثر نتائج نہیں دے سکے گی۔
اس لیے ہمیںان حالات میں بطور ریاست اور حکومت خود کو بھی تیار کرنا ہے اور قوم کو بھی تیار کرنا ہے کہ کیسے ہمیں ان چیلنجز سے مقابلہ کرنا ہے۔اس کے لیے قومی سطح پر ایک بڑے اتفاق رائے کا ماحول درکار ہے اور اس میں سب فریقین کواپنے اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات سے باہر نکل کر ریاست یا ملک کے مفادات کو اہمیت دینا ہوگی ۔اسی حکمت عملی کے تحت ہم بھارت کی پراکسی جنگ میں اس کو پسپائی پر مجبور کرسکتے ہیں۔