آج ہم ایک بار پھر ہم پاکستان کی ایٹمی قوت کے اعلان کی یاد میں یوم تکبیر منا رہے ہیں۔یوم تکبیر کے حوالے سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ یوم تکبیر کو یوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے طور پر منانا چاہیے لیکن حکومتوں کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں اور ان مصلحتوں کی اسیری میں ہم جیسے طفل مکتب لکھاریوں کی بات نقار خانے میں طوطی والی ہوتی ہے جن کی صدا اقتدار کے ایوانوں سے ٹکراکر فقط ایک گونج ہی رہ جاتی ہے۔
بہر حال پاک بھارت حالیہ جنگی کشیدگی نے ایک بار پھر جنوبی ایشیا کو عالمی خبروں کا مرکز بنا رکھا ہے۔ سرحدوں پر بھارتی جارحیت کے باعث جاری جھڑپیں، فضاؤں میں گونجتے پاکستانی جنگی طیاروں کی گھن گرج اور دونوں ملکوں کی عوام میں بڑھتی بے چینی یہ سب کچھ اس خطے کی غیر یقینی صورتحال کو واضح کرتے ہیں۔ ایسے میں ایک نام بار بار ذہن میں ابھرتا ہے جس نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر دفاعی قوت دی اور وہ نام ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا۔ آج جب پاکستان بھارت کی جنگی دھمکیوں کا بھرپور اور پراعتماد جواب دیتا ہے تو اس کے پیچھے وہ ایٹمی صلاحیت ہے جو ڈاکٹر صاحب کی محنت کا نتیجہ ہے۔
بھارت کی پاکستان مخالف مسلسل اشتعال انگیزیاںدراصل بھارتی سیاسی قیادت کی داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے اور خطے میں تھانیداری کا کردار ادا کرنے کی ایک کوشش ہے ۔ ایسے میں پاک فوج کی جانب سے بھرپور دفاع، فضائیہ کی مستعدی اور عسکری قیادت کا دوٹوک پیغام دشمن کو واضح کر رہا ہے کہ پاکستان ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گا۔
اس اعتماد کی اصل روح اوربنیاد پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے جس کی داغ بیل 1974 میں بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے کے بعد ڈالی گئی۔ بھٹو صاحب نے قوم سے وعدہ کیا کہ ہم ’’گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘ ۔ان کو اس ’جرم‘ کی سزا تو مل گئی لیکن ان کے قوم سے کیے گئے اس وعدے کو تعبیر دینے والا ایک مردِ مجاہد ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس قوم کو مل چکا تھا جنھیں پاکستانی قوم محسن پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے پاس یورپ میں ایک خوشحال زندگی گزارنے کے تمام مواقع موجود تھے لیکن پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد انھوں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آیندہ کوئی ایسا وقت پاکستان پر نہیں آنے دیں گے۔ انھوں نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کی بنیاد رکھتے ہوئے ایک ایسے سفر کا آغاز کیا جس کا ہر قدم خطرات سے بھرا ہوا تھا۔ انھوں نے محدود وسائل، کم تجربہ کار ٹیم اور عالمی تنہائی کے باوجود وہ کارنامہ انجام دیا جو دنیا کی کئی ترقی یافتہ ریاستیں دہائیوں میں مکمل نہ کر سکیں۔
28 مئی 1998 کو چاغی کے پہاڑوں میں جب زمین کانپی اور آسمان گونجا تو دنیا نے مان لیا کہ پاکستان اب دفاعی لحاظ سے ناقابلِ تسخیر ہو چکا ہے۔ اس دن پاکستان خودکو ایک ایٹمی قوت کے طور پر منوا چکا تھا۔ایٹمی صلاحیت انسانی تباہی کے لیے نہیں ہوتی لیکن ماضی میں امریکا نے اس صلاحیت سے انسانی تباہی کا کام لیا تھا اس لیے یہ ایک خوفناک ہتھیار بن گیا جس کا استعمال تباہی کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا مقصد بھی جنگ نہیں بلکہ جنگ کو روکنا ہے۔
محسن پاکستان نے ہمیشہ کہا کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے۔ جس کا بنیادی مقصدبھارت کی عسکری برتری کو متوازن کرنا اور کسی بھی ممکنہ جارحیت کو روکنا ہی اس کا اصل ہدف ہے۔حالیہ صورتحال میں جب بھارتی میڈیا اور سیاستدان جنگی جنون میں مبتلا ہیں تو پاکستان کی قیادت اور عوام کے اعتماد کی وجہ یہی ایٹمی تحفظ ہے۔ بھارت یہ بخوبی جانتا ہے کہ اگر اس نے اپنی اقات سے بڑھ کرکسی بھی قسم کی مہم جوئی کا ارتکاب کیاتو پاکستان کی جانب سے ردعمل ایسا ہوگا جو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
پاکستان کی قومی قیادت کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ ایسی عالمی طاقتوں کی دوستی کے بھرم کے زیر اثر رہی ہے جن کا مقصد پاکستان کی ترقی نہیں بلکہ پاکستان کو خطے کا ایک کمزور ملک بنانا ہے جو بھارت کے زیر اثر ہو لیکن چند ایک ایسے سر پھرے پاکستانی ہمیشہ موجود رہے جو اس مذموم مقصد کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ جذبہ ایمانی سے بھر پور جس شخصیت نے پاکستان کو بقا کی ضمانت دی، انھیں زندگی کے آخری ایام تنہائی، خاموشی اور محدودیت میں گزارنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ان پر الزامات لگے، نظر بندی ہوئی اور دنیا کے سامنے انھیں معذرت خواہ بننے پر مجبور کیا گیا۔ ایک ہیرو اپنی ہی قوم کی ناقدری کا شکار ہوالیکن تاریخ ہمیشہ سچ بولتی ہے اور آج کا سچ یہی ہے کہ پاکستانی قوم ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کر تی ہے۔
محسن پاکستان چند برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن وہ قوم کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی خدمات کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔ آج کا مضبوط پاکستان، آج کا پراعتماد دفاع اور آج کی مستحکم عسکری حکمت عملی ان ہی کے خواب کی عملی تعبیر ہے۔
یوم تکبیر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اس روز پاکستان ایٹمی قوت بنا۔ اس روز پاکستان کے عوام کو نیا حوصلہ ملا جب کہ پاکستان کے دشمنوں کو پیغام ملا کہ اگر انھوں نے کوئی حرکت کی تو اس کا سخت جواب ملے گا۔ بھارت نے بھی ایٹمی دھماکے کیے تھے ‘بھارت کا خیال تھا کہ وہ اس خطے کی سپر پاور بن جائے گا ‘پاکستان ایٹمی دھماکے نہیں کر پائے گا لیکن پاکستان نے بھارت سے زیادہ دھماکے کر کے ثابت کر دیا ایٹمی قوت میں پاکستان بھارت سے کہیں آگے ہے۔
پاکستان کی ایٹمی مہارت اور میزائل ٹیکنالوجی اپنی جدت کے اعتبار سے بھارت سے بہت سے بہتر ہے۔ پاکستان کا یہ عزم بھی واضح ہے کہ اس کی ایٹمی صلاحیت امن کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔حالیہ پاک بھارت جنگ میں یہ ثابت ہو گیا کہ بھارت اس صلاحیت کی وجہ سے ہی ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔