سائنس دانوں نے خلاء کی گہرائیوں میں پہلی بار ایک شدید خلائی تصادم کا مشاہدہ کیا ہے جس میں ایک کہکشاں دوسری کہکشاں پر طاقتور شعاعیں برسا رہی ہے۔
جرنل نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایک کہکشاں کی جانب سے کی جانے والی شعاعوں کی بمباری دوسری کہکشاں کی نئے ستارے بنانے کی صلاحیت کم کر رہی ہے۔
اس نئی تحقیق میں یورپین سدرن آبزرویٹری کی ویری لارج ٹیلی اسکوپ اور ایٹاکاما لارج ملی میٹر/سب ملی میٹر ایرے سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو یکجا کر کے نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔
تحقیق کے مطابق کائنات کی گہرائیوں میں دو کہکشائیں ایک دوسرے سے سینگ اڑائے کھڑی ہیں اور ایک دوسرے سے تصادم کی جانب 500 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہی ہیں۔
فرانس کے انسٹیٹیوٹ ڈی آسٹرو فزک ڈی پیرس کے ایک محقق اور تحقیق کے شریک مصنف پاسکوئر نوٹرڈیم کے مطابق ماہرین نے اس سسٹم کو ’خلائی مقابلہ‘ قرار دیا ہے۔
ان دونوں کہکشاؤں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک کہکشاں کو دوسری پر سبقت حاصل ہے کیوں کہ وہ اپنی مخالف کہکشاں کے خلاف کوسر کا استعمال کرتی ہے۔
کوسر دور دراز موجود کہکشاؤں کے روشن مرکز ہوتے ہیں جن کو سپر میسو بلیک ہولز چلا رہے ہوتے ہیں، جن سے بڑی مقدار میں شعاعیں نکل رہی ہوتی ہیں۔ کوسرز اور کہکشاؤں کا آپس میں ملاپ پہلے بہت عام تھا، کائنات کے وجود ابتدائی کچھ ارب برسوں میں یہ تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے تھے جن کے مشاہدے کے لیے ماہرینِ فلکیات طاقتور ٹیلی اسکوپس کی مدد سے ماضی میں جھانکتے ہیں۔
اس ’خلائی مقابلے‘ سے خارج ہونے والی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں 11 ارب برس سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے یعنی یہ وقوعہ اس وقت پیش آیا ہے جب کائنات اپنی موجودہ عمر کی صرف 18 فی صد تھی۔