32 C
Lahore
Thursday, May 29, 2025
ہومغزہ لہو لہوعالمی برادری بھارت پر دبائو ڈالے

عالمی برادری بھارت پر دبائو ڈالے


وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران نے تجارت، سرمایہ کاری سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، خطے میں امن کے لیے بھارت سے پانی،کشمیر، دہشت گردی سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ علاوہ ازیں شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ حالیہ تنازعے اور اس کے ’’ تسلط پسندانہ عزائم‘‘ کے بارے میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو آگاہ کیا۔ انھوں نے بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دینے پر ایرانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔

 بلاشبہ وزیراعظم پاکستان کے دورہ ایران سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آئی ہے اور ایک نئے عہد کا آغاز ہونے جا رہا ہے، جس میں باہمی تجارت فروغ پائے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایران نے پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی جارحیت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب، یو اے ای اور ایران نے لڑائی ٹالنے کے لیے سفارتی کوششیں کیں لیکن غرورکے گھوڑے پر سوار مودی نے کسی کی نہ سنی تھی۔

وزیراعظم پاکستان کا یہ دورہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ہمراہ کرنے کا واضح مقصد دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ اظہار تشکر اور یکجہتی کا ثبوت ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے کشمیر، امن، پانی کے حقوق، تجارت اور انسداد دہشت گردی سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر بھارت کے ساتھ سنجیدہ اور تعمیری بات چیت کے لیے تیار رہنے کے اپنے موقف کا اعادہ کیا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کی ایٹمی اور روایتی دفاعی صلاحیت، قومی اتحاد اور دوٹوک ردعمل نے نہ صرف بھارت کے جارحانہ عزائم کو نکیل ڈالی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو پذیرائی بھی دلوائی ہے،کیونکہ پاکستان نے اس کشیدگی کو بڑھانے کے بجائے روکنے میں کافی حد تک مدد دی۔

پاکستان کی جانب سے ایٹمی اور روایتی روک تھام ایک بہت بڑی چیز تھی اور جس طرح سے قوم ایک دم کھڑی ہوگئی، اس سے بھارت کا اندازہ غلط نکلا کہ یہاں کوئی پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔ اس بار جب انڈین عوام نے بھی ثبوت مانگے تو مودی حکومت ثبوت نہیں دکھا سکی ۔ پہلگام واقعے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال پر ہماری حکومت کا دو ٹوک مؤقف ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے تاہم اس کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ درحقیقت بھارت اپنی جارحانہ پالیسیوں، انتخابی مجبوریوں یا انتظامی کوتاہیوں کا بوجھ پاکستان پر نہیں ڈال سکتا، اگر 7 لاکھ فوج کی موجودگی بھی مقبوضہ کشمیر میں امن کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا تو یہ بھارت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

 پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے اور گزشتہ سال یہاں دہشت گردی کے تقریباً ایک ہزار واقعات پیش آئے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کی عالمی جنگ میں صف اول کا کردار ادا کیا ہے اور اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانوں اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان اٹھایا ہے۔ بھارت کی ہی کوششوں سے بلوچستان میں وطن عزیز کے خلاف دہشت گردی کو دائمی بنانے کے لیے بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی کئی دہشت گرد تنظیمیں قائم کی گئیں، ان کی باقاعدہ فنڈنگ بھی کی گئی جو ابھی بھی جاری ہے۔ پہلے یہ دہشت گرد تنظیمیں بلوچستان میں ہی موجود تھیں مگر پاکستانی فوج کی ان کے خلاف مہم جوئی کی وجہ سے وہ افغانستان منتقل ہو گئیں ۔

 ایران پاکستان کا پرانا اور آزمودہ دوست ملک ہے۔ ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا اور اس نوزائیدہ مملکت سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ دونوں ممالک کے ہمیشہ ہی اچھے مثالی تعلقات قائم رہے ہیں۔ ایرانی حکومت نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں پاکستان کو ضروری اسلحہ بھی فراہم کیا تھا۔ پاکستان نے آیت اﷲ خمینی کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد ایران سے اپنے تعلقات بحال رکھے تھے اور ان میں مسلسل بہتری آئی تھی۔

پاکستان کے امریکا اور یورپی ممالک سے گہرے تعلقات قائم ہیں مگر پاکستان نے ایرانی اسلامی حکومت سے بھی ہمیشہ دوستانہ ہی نہیں بلکہ برادرانہ تعلقات قائم رکھے اور امریکا کی پابندیوں کے باوجود بھی ایران سے کسی نہ کسی سطح پر تجارت بھی جاری رکھی۔ ایران پاکستان مسلمانوں کے لیے مذہبی طور پر بھی کافی کشش رکھتا ہے کیونکہ وہاں کئی برگزیدہ ہستیوں کے مزارات موجود ہیں جن کی زیارت کرنے کے لیے سال بھر ہی پاکستانی ایران جاتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر محرم کے ایام میں ہزاروں پاکستانی ایران جاتے ہیں ۔

اس وقت بھارت کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے جب کہ پاکستان 25 کروڑ لوگوں کا ملک ہے، بھارت دنیا کی چوتھی بڑی فوجی طاقت کا حامل ملک ہے جب کہ پاکستان کا نمبر غالبا15واں ہے، بھارت دفاع پر خرچ کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جب کہ پاکستان اس فہرست میں بہت پیچھے ہے۔ بھارتیوں کی فعال فوج 15 لاکھ کے قریب ہے جب کہ پاکستان کی ساڑھے 6 لاکھ ہے، بھارت کے پاس کل 513 لڑاکا طیارے اور پاکستان کے پاس تقریباً 300 ہیں۔ اسی نوع کی برتری بھارت کو ہیلی کاپٹروں اور دیگر ہتھیاروں میں بھی حاصل ہے، بحریہ میں تو بھارت کی سبقت اور بھی زیادہ ہے، پروپیگنڈا جو اس دورکی جنگوں کا اہم ہتھیار سمجھا جاتا ہے میں بھی بھارت بہت آگے ہے۔

 اس کے ٹی وی چینلزکئی سو ہیں، سوشل میڈیا کو پاکستان میں اگر چند لاکھ افراد استعمال کرتے ہیں تو بھارت میں کروڑوں استعمال کرتے ہیں، معاشی لحاظ سے پاکستان کمزور ہے جب کہ بھارت اپنے آپ کو ایشیا کی سپر پاورگردان کر عالمی معاشی طاقت بننے کے لیے سرگرم عمل ہے، وہ چین کو تو اپنے لیے ٹکرکا دشمن سمجھتا ہے لیکن پاکستان کو ترنوالہ بھی نہیں سمجھتا تھا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے معاملے میں مودی غرور اور تکبر کے پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا تھا لیکن ان کی طرف سے چھیڑی گئی لڑائی میں اللہ نے پاکستان کو فتح مبین سے ہمکنار کیا اور بھارت اپنے زخم چاٹتا رہ گیا۔

یہ ایک ایسی لڑائی تھی جس میں پاکستان اخلاقی لحاظ سے بلندی کی پوزیشن پر فائز تھا، پاکستانی سول اور عسکری قیادت نے شروع دن سے تدبر کا ثبوت دیا، جب پہلگام کا واقعہ ہوا تو پاکستان نے اس کی مذمت کی، جب انڈیا نے الزام پاکستان پر لگا دیا تو پاکستان نے تحقیقات میں ہر قسم کے تعاون کی پیشکش کی پھر بھی جب مودی لڑائی پر مصر رہا تو پاکستانی وزیر اعظم نے امریکا یا کسی اور کی ثالثی میں تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔ اس صورت حال نے پاکستان کو ایک برتر اخلاقی مقام دلوا دیا اور دنیا کی اکثریت جن کے بارے میں مودی کا خیال تھا کہ سب اس کے ہمنوا رہیں گے، میں اسرائیل کے سوا کسی ملک نے کھل کر بھارت کی حمایت نہیں کی۔

پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر بھارت کا مائنڈ سیٹ کچھ اور ہے۔ بھارت ٹی ٹی پی کو اور بی ایل اے کو اسلحہ اور فنڈز دے رہا ہے‘ کیا قیامِ امن کے لیے دے رہا ہے؟ کیا کلبھوشن امن کا درس دینے آیا تھا؟ بیٹھے بٹھائے سندھ طاس معاہدے پر بھارت نے جو شب خون مارا ہے‘ کیا امن کی تلاش میں مارا ہے؟ راہول گاندھی بھارتی پارلیمنٹ میں چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ بھارتی حکومت نے پاکستان اور چین کو باہم متحد کرکے بھارت کا بہت بڑا نقصان کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ بھارتی پالیسیوں کا ایک اہم حصہ پاکستان اور چین میں دوریاں پیدا کرنا ہے، اس جنگ میں طالبان نے پاکستان کی کوئی اخلاقی حمایت نہیں کی۔ البتہ مُلا عبد السلام ضعیف کا ایک زہر آلود بیان ضرور وائرل ہو رہا ہے ، جسے کسی طور پر بھی مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

عالمی برادری کو بھارت سے یہ سوال تو کرنا چاہیے کہ وہاں رونما ہونے والے کسی بھی واقعے کے چند منٹ بعد ہی اس کی قیادت کو یہ کیسے پتا چل جاتا ہے کہ یہ کارروائی پاکستان نے کی یا کرائی ہے؟ بھارت جو پاکستان، افغانستان حتیٰ کہ کینیڈا اور امریکا میں ٹارگٹ کلنگ کراتا پھر رہا ہے اور دہشت گردی کی مرتکب خطرناک تنظیموں کو مسلسل فنڈنگ کر رہا ہے۔

 اس کا کیا جواز ہے؟ اور بھارت کی ان مذموم کارروائیوں کی طرف کسی کی توجہ کیوں نہیں جاتی ہے؟ جس دن عالمی برادری کی جانب سے بھارت سے ان سوالات کے جوابات طلب کر لیے گئے اسی روز سے دہشت گردی کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ بھارت کی توسیع پسندانہ عزائم تو کام خراب کر ہی رہے ہیں، عالمی برادری کی مسلسل خاموشی بھی بہت سے کام خراب کر رہی ہے۔ دنیا کے امن کی خاطر اقوام عالم کو یہ خاموشی توڑنا پڑے گی اور اس کا آغاز جاری پاک بھارت کشیدگی کو کم کرنے اور جنگ کے خدشات کو ختم کرنے سے ہونا چاہیے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات