خواتین وحضرات! معروف شاعر، دانشور اور کالم نگار جناب محمد اظہار الحق صاحب ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد محترم بھی اردو اور فارسی کے شاعر تھے اور ان کے دادا بھی شاعر تھے۔ وہ خود بھی ملک کے چوٹی کے شعراء میں شمار کیے جاتے ہیں، نثر بھی کمال کی لکھتے ہیں۔ میں ان کے کالم بڑے اشتیاق سے پڑھتا ہوں، میرے لیے وہ بڑے بھائیوں کی طرح محترم ہیں۔ ان کے ساتھ فون پر ہمیشہ بڑی خوشگوار گفتگو ہوتی ہے مگر چند روز پہلے ان کی کال آئی جس نے مجھے پریشان کردیا۔
اظہارالحق صاحب نے فون پر اپنی نئی کتاب ’’سمندر، جزیرے اور جدائیاں‘‘ کی تقریبِ رونمائی کی خبر سنائی اور ساتھ ہی یہ حکم بھی سنادیا کہ ’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تقریب کی صدارت آپ کریں گے‘‘۔ میں نے کہا جناب کسی سینئر ادیب اور رائٹر سے صدارت کروائیں مگر وہ نہ مانے۔ میں احتجاج کرتا رہا اور وہ میرے احتجاج مسترد کرتے رہے۔ دوسرے روز میں اسلام آباد میں ایک دوست کے ساتھ تھا۔ ہوٹل سے گذر کر ہم شاہراہِ دستور پر چڑھے تو دوست نے پوچھا ،آپ پریشان لگتے ہیں کیا معاملہ ہے؟ میں نے اظہار صاحب کے فون کی رواداد سناتے ہوئے کہا کہ ’’انھوں نے تقریب کی صدارت کا فیصلہ میرٹ کے مطابق نہیں کیا اس لیے ذہن پر بوجھ ہے‘‘ دوست کہنے لگا، اپنے دائیں طرف دیکھووہ سفید رنگ کی شاندار عمارتیں نظر آرہی ہیں؟ میں نے کہا،انھی عمارتوں میں سے کسی کے بارے میں چند سال پہلے میں نے یہ شعر کہا تھا کہ
عمارت نئی بنی تو کوئی اُس پہ لکھ گیا
مکاں کا عروج ہے اور مکیں کا زوال ہے
دوست کہنے لگا اگر یہ شعر آپ کا اپنا ہی ہے تو پھر آپ خوب جانتے ہوں گے کہ تیسری دنیا کے ہمارے جیسے ملکوں میں صدارت پارٹی کی ہو، ملک کی ہو یا کسی ادبی تقریب کی، اس میں میرٹ وغیرہ کو زحمت نہیں دی جاتی۔ اس لیے ذہن پر بوجھ نہ ڈالیں اور پریشان ہونا چھوڑ دیں۔ تقریب کی حتمی تاریخ طے ہوگئی تو میزبان تنظیم زاویہ کے روحِ رواں اور جڑواں شہروں کی سب سے متحرّک ادبی شخصیّت محبوب ظفر مزید متحرّک ہوگئی۔
ان کا مجھے فون آیا، تقریب میں شرکت کی تاکید کرچکے تو میں نے کہا ’’ضرور حاضر ہوں گا مگر یہ تو بتائیے کہ جائے وقوعہ کہاں ہے؟‘‘کہنے لگے،دیکھیں آپ کسی وقوعے پر تفتیش کے لیے نہیں آرہے اور اب آپ پرانی سروس اور اس کی زبان بھول جائیں۔ میں نے کہا معذرت چاہتا ہوں مگر؎ چھُٹتی نہیں ہے منہ پہ یہ بولی چڑھی ہوئی۔ پھر خود ہی فرمانے لگے کہ ’’تقریب ساڑھے پانچ بجے تک اختتام پذیر ہوجائے گی۔ یہ میں اس لیے بتارہا ہوں کہ آپ مجھ سے یہ نہ پوچھ لیں کہ ’’مجمع کس وقت منتشر ہوگا؟‘‘ خیر میں نے تقریب کی جگہ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمانے لگے ’’ادارہ فروغِ قومی زبان کے ہال میں‘‘۔ میں نے کہا اس کا محلِ وقوع بتادیجئے۔ کہنے لگے ’’اسلام آباد کے بڑے قبرستان میں تو آپ آتے رہتے ہوں گے۔
سیدھے قبرستان آجائیں، اس کے بڑے اسپتال یعنی شفا کی طرف آئیں بس اس کے ساتھ ہی ہے‘‘۔ محترم اظہارالحق صاحب سے ایڈریس پوچھا تو انھوں نے بھی پہلے قبرستان کی راہ دکھائی، اس کے بعد اسپتال لے آئے اور آخر میں دفتر کی نشاندہی کی۔ محبوب ظفر صاحب کے معاون کا مزید تاکید کی غرض سے فون آیا تو اس نے بھی وہی دھرایا۔ پہلے قبرستان آئیں، پھر اسپتال، اس بار مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے کہا بھائی ہمارے ہاں رِیت اور روایت یہ رہی ہے کہ ہم پہلے اسپتال جاتے ہیں اور وہاں سے سیدھے قبرستان پہنچتے ہیں۔ اس لیے آپ ترتیب بدل لیجیے۔ ویسے قومی زبان کے فروغ کے لیے تو ادارے کی خدمات کا علم نہیں مگر اس کے محلِ وقوع کے باعث جس یکسوئی اور تسلسل کے ساتھ لوگوں کو قبرستان کی راہ دکھائی جاتی ہے یعنی انجام کی جانب توّجہ مبذول کرائی جاتی ہے۔ اس سے مجھ جیسے بہت سے گناہگار یہاں پہنچنے سے پہلے ہی توبہ تائب ہوجاتے ہیں۔ جو بہرحال اس ادارے کی بڑی کامیابی ہے۔
خواتین وحضرات! جیّد شعراء کے بقول یہ ایک شعر اظہار الحق صاحب کو ادبی حلقوں میں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے
؎غلام دوڑتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
مگر کالم نگاری میں بھی انھوں نے اپنا لوہا منوالیا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ان کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ وہ اپنے کالموں کے ذریعے سماجی برائیوں اور بدصورتیوں کی نشاندہی کرتے ہیں تاکہ گھر (وطنِ عزیز) کے کسی حصّے میں گندگی جمع ہوجائے تو اس کی صفائی کی جائے۔ کوئی حصّہ مرمّت طلب ہے تو اس کی مرمّت ہو تاکہ نہ صرف گھر کا حسن بحال ہو بلکہ اس میں نکھار آجائے۔
آج کی زیرِ بحث کتاب کے دو حصّے ہیں۔ پہلے حصّے میں مصنّف کی اپنے پیاروں کے ساتھ خصوصاً grand children کے ساتھ لازوال محبت اور شفقت کا اظہار ملتا ہے۔ مگر جب یہ پیارے، پنچھیوں کی طرح اپنے اپنے گھونسلوں اور اپنے اپنے ٹھکانوں کی جانب پرواز کرنے لگتے ہیں تو اُس وقت grand parents جدائی کے جس درد اور کرب سے گذرتے ہیں اُس کی اِس طرح تصویر کشی کی گئی ہے کہ پڑھنے والے تڑپ اٹھتے ہیں اور قارئین کی آنکھیں نمناک ہوجاتی ہیں۔ ’’وصال اور فراق‘‘ میں ایسے ہی جذبات کی بڑی موثر عکاسی کی گئی ہے۔
کتاب کے دوسرے حصّے میں انھوں نے ہمارے ملک کی دیہاتی زندگی کے سارے انگ، ڈھنگ اور رنگ دکھادیے ہیں۔ ان کی بنائی گئی تصویریں اُس دیہی زندگی کی ہیں جو سادگی، خلوص، محبّت اور ایثار سے عبارت تھی۔ جب اس میں لالچ، ھوس اور حسد کا کوئی دخل نہ تھا اور جب یہ بے جا تکلّفات، مشینی آلات اور جدید دور کی خرافات سے پاک تھی۔ چونکہ مصنّف کا اپنی جڑوں اور اپنی مٹّی کے ساتھ رشتہ بہت گہرا اور مضبوط ہے اور جسے شہری زندگی کی چکاچوند بالکل متاثر نہیں کرسکی اس لیے جس ذوق وشوق اور جس محبّت وعقیدت کے ساتھ محمد اظہارالحق نے دیہی ثقافت کی عکسبندی کی ہے، وہ کہیں اور نہیں ملتی، چونکہ میری جڑیں بھی گاؤں سے پیوستہ ہیں اس لیے ان کے کالم میرے دل کو چُھوتے ہیں۔ ان کے فقرے دلکش گیتوں کی طرح میرے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
ان کی تحریریں مجھے اُن کھیتوں اور کھلیانوں میں لے جاتی ہیں جن میں میرا بچپن گذرا ہے، ان کے مضامین پڑھتے ہوئے میرے کانوں میں کنویں کے بیلوں کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں اور آبشاروں کی طرح ٹِنڈوں سے گرتے پانی کا ترنّم دلوں کے تار ہلانے لگتا ہے۔ دیہی بودوباش کے بارے میں ان کے کالموں سے تازہ مکھن سے پکائے جانے والے مکئی کے پراٹھوں اور اپلوں کی آگ میں ابلنے والے خالص دودھ کی خوشبو آتی ہے۔ مصنّف نے دیہاتی زندگی کے ہر پہلو کو آشکار کیا ہے، مختلف رسوم ورواج سے قارئین کو متعارف کرایا ہے، اور ہر اہم سماجی، ثقافتی اور مذہبی تقریب کی بڑی چابکدستی کے ساتھ عکس بندی کی ہے۔
’’رمضان تب اور اب‘‘ ’’ککڑا دھمی دیا‘‘ اور ’’درانتی‘‘ بڑے یادگار کالم ہیں۔کتاب کے کالم مٹتی ہوئی دیہی تہذیب کا نوحہ بھی ہیں۔ وہ اُس دور کو یاد کرتے ہیں جب گھر میں سب لوگ اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، جب ایک بڑے کمرے (پسار) میں آٹھ دس چارپائیاں ہوتی تھیں، جب قربتیں تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور آج کی طرح میرا کمرہ، میرا کمپیوٹر، میری کار والی سوچ نہ تھی۔
؎ کیا زمانہ تھا کہ سب ساتھ رہا کرتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
یہ ایک کتاب نہیں یہ ہمارے دیہاتی کلچر کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ یہ ہمارا Cultural Treasure ہے جسے آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرلینا چاہیے۔ یہ اس لیے بے حد ضروری ہے کہ پھر شاید کوئی ایسا مصوّر نہ آئے جو ہماری دیہی زندگی کی ایسی خوش رنگ اور ایسی دیدہ زیب تصویریں بناسکے۔ پھر شاید برسوں تک کوئی ایسا قلمکار نہ اٹھے جو دیہی ثقافت کے سارے پہلوؤں اور تمام زاویوں کو اتنی ہنرمندی سے قلمبند کرسکے۔ پھر شاید کوئی ایسانے نواز نہ ملے جس کی لے میں اتنا سوز ہو اور جو اُس سادہ اور پُرخلوص زندگی کے، دلکش گیت سناسکے اور پھر شاید کئی دھائیوں تک کوئی ایسا قلمکار اور کالم نگار نہ مل سکے جسے اپنی مٹی اور جڑوں سے عشق بھی ہو، جس کی لے میں سوز بھی ہو، جس کی تحریر میں حسن بھی ہو اور جس کی تصویر میں جان بھی ہو۔
لہٰذا اس قیمتی دستاویز کو آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرلینا چاہیے۔ آخری بات کہہ کر اجازت لوں گا۔ چند سال پہلے مجھے ایک دوست ایک ادبی محفل میں لے گیا۔ صاحبِ صدر کا چہرہ غیر معروف اور اجنبی سا محسوس ہوا۔ قریب بیٹھے ایک باخبر صحافی سے پوچھا یہ صاحب کون ہیں۔ کیا یہ کوئی قلمکار ہیں؟ کہنے لگا ’’یہ قلمکار نہیں ٹھیکیدار ہیں۔ مذہبی اور ادبی تنظیموں کو چندہ دیتے ہیں‘‘۔ اس قسم کی کوئی غرض نہ ہوتے ہوئے بھی جناب اظہارالحق صاحب نے اس خاکسار کو صدر نشیں بنایا ہے جس پر میں ان کا ممنوں ومشکور ہوں۔ (یہ تقریر چند روز قبل اظہارالحق صاحب کی نئی کتاب کی تقریبِ رونمائی میں کی گئی)