گجرات کچہری چوک سے بھمبر روڈ پر سفر شروع کریں توکچھ آگے زمیندارکالج ہے۔ گھنے درختوں میں گھرا اور پھولدار پودوں سے لدا ہوا، اینگلو انڈین طرز تعمیرکا شاہکار یہ کالج پہلی نظر ہی میں نووارد طلبہ کو اپنا دیوانہ بنا دیتا تھا، وہیں دور ونزدیک کے نوجوان اساتذہ کے دل بھی بطور لیکچرراسے جوائن کرنے کے لیے تڑپتے تھے۔
راولپنڈی کے عبدالواحد صاحب نے بھی جب پہلی بار یہ کالج دیکھا، تو بس دیکھتے ہی رہ گئے، ان کے بڑے بھائی اسی کالج میں انگریزی کے لیکچررتھے۔ چنانچہ جیسے ہی کالج میں اردو لیکچرر کی اسامی نکلی۔ واحد صاحب زمیندارکالج اکیڈیمک اسٹاف کا حصہ بن گئے۔ بقول ان کے، یہ خواب ان کا پورا ہوا، تو جیسے ان کی زندگی کے سارے خواب پورے ہو گئے۔ مجھے فرسٹ ایئر اردوکا وہ پہلا پیریڈ آج بھی یاد ہے۔
کلاس روم طلبہ سے بھر چکا تھا۔ کچھ ہی دیر میں واحد صاحب حاضری رجسٹر تھامے کلاس روم میں داخل ہوئے، متناسب قامت، گھنے بال، جو تیزی سے سفید ہو رہے تھے، کالے فریم والی نظر کا چشمہ، بھورے رنگ کی نفیس شلوار قمیص پر میچنگ واسکٹ، واحد صاحب کی شخصیت بڑی دلکش معلوم ہو رہی تھی۔
پہلے پیریڈ ہی میںطلباء ان کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ واحد صاحب کی ذاتی توجہ اور شفقت البتہ مجھے اس وقت حاصل ہوئی، جب کالج کے سالانہ ٹیسٹ کے نتائج آئے ۔ میں اردو میں بہت اچھے نمبروں کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ جب واحد صاحب نے کلاس روم میں آتے ہی سب سے پہلے میرا رول نمبر پکارا تو میں ڈر گیا کہ خدا خیر کرے۔ لیکن پھر حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی ، جب انھوں نے پوری کلاس کو میرا امتحانی پرچہ دکھاتے ہوئے کہا کہ میں تو صرف اس کا پرچہ دیکھ کے خوش ہوا ہوں۔ بس اس روزکے بعد میں گویا ان کے چہیتے شاگردوں میں شامل ہو گیا۔
واحد صاحب ان دنوں سیالوی روڈ گجرات پر پرانی طرزکی ایک پیلی کوٹھی میں کرایہ پر رہتے تھے۔ عشق لاحاصل کے بعد تنہائی ہی کو اپنا ’جیون ساتھی‘ بنا چکے تھے۔ شام کو البتہ کھانا پکانے کے لیے کوئی باورچی آ جاتا تھا۔ یہیں سے روزانہ سائیکل پرکالج پہنچتے تھے۔ یہ پیلی کوٹھی ہمارے گھر کے قریب ہی تھی، اس لیے اب کالج اوقات کے بعد بھی ان سے ملاقات رہنے لگی تھی۔ اس کے صحن میں کبھی کبھار ہم کچھ طلبہ کی چائے سے تواضع بھی کرتے۔ ان کی گفتگو میںکیرئیر، روپیہ پیسہ یا گھر بنانے کی تگ ودو کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ شعروادب ہی اول و آخر ان کے موضوعات تھے۔
شام کے بعد وہ گھر سے کم ہی نکلتے۔ اس سمے جب کبھی ان کے گھر جانا ہوا، ہمیشہ ان کو اپنے کمرے میں بستر پر ٹیک لگائے لیمپ کی روشنی میں مطالعہ کرتے پایا۔ ان کی طبع نازک کو میر تقی میرؔ، میر دردؔ اور ناصرؔ کاظمی سے خاص مناسبت تھی، بلکہ میرؔ کو غالبؔ پر فوقیت دیتے تھے۔ میرؔ کو پڑھنے اور سمجھتے کا سلیقہ میں نے واحد صاحب ہی سے سیکھا، ورنہ ’سہل ہے میرؔ کا سمجھنا کیا کہ ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے‘۔
واحد صاحب کے مشفق سایہ میں کالج کے سہانے دن کسی مہکتے تیز جھونکے کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہوگئے۔ میں پڑھنے کے لیے لاہور آگیا، تب بھی ابتدائی طور پر ان سے برابر رابطہ رہا، لیکن پھر یہاں نوکری اور گھرداری کے جھنجھٹوں نے ان کے گھر کا راستہ بھی بھلا دیا۔ کئی برس اسی خود فراموشی میں بیت گئے۔ ایک مدت بعد زندگی میں کچھ ٹھیراو آیا اور مڑ کے دیکھا تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ جی چاہا کہ وہ پیلی کوٹھی ہی دیکھ آوں۔ پر، وہاں گیا تو وہ کالی کوٹھی اب دیکھنے کو بھی میسر نہ تھی، سب مٹ چکا تھا۔ معلوم ہوا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد واپس راولپنڈی چلے گئے تھے اور ان دنوں واہ کینٹ میں کسی بہن کے گھر انیکسی میں زندگی کے باقی دن کاٹ رہے ہیں۔
ایک دوست کی مہربانی سے ان کا سیل نمبر مل گیا۔ یہ وبا کے دن تھے۔ ایک روز ان کا نمبر ملایا۔ آہستگی کسی نے پوچھا، ’جی، فرمائیے؟‘۔ ’سر، میں آپ کا شاگرد اصغر عبداللہ ہوں۔‘ کچھ توقف کے بعد، جیسے کچھ یادکر رہے ہوں، ان کی وہی کالج کے زمانے کی جانی پہنچانی آواز سنائی دی،اگرچہ آج اس میں بڑھاپے کی افسردگی واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی۔’آہا، اصغر میاں، خیریت سے ہو؟ میں تو سمجھا تھا، گجرات کے اکثر باسیوں کی طرح تم بھی کہیں دور دیس چلے گئے ہو۔‘ ان کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں، اور ایکا ایکی بیتے دنوں کی اتھاہ گہرائیوں سے وہ پرانی پیلی کوٹھی پھر نظروں کے سامنے آ گئی ۔
باہر بارش سے پہلے کی تیز ہوا چل رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ لمبی بات کرنے میں ان کو دقت ہو رہی ہے۔ ’سر میں واہ کینٹ میں آپ کو ملنے آوں گا۔‘ میں نے کہا۔ ’میرے پاس تو وقت ہی وقت ہے اصغر، انھوں نے کہا، ’لیکن، اس وبا اور خراب موسم میں مجھ بوڑھے کے لیے خودکو اتنی تکلیف کیوں دیتے ہو۔ موسم ذرا کھل جائے دو، اوردیکھو۔ لیکن، یہ موسم پھر کبھی نہیں کھلا، ان کی وہ شفیق آواز پھر کبھی سنائی نہیں دی۔ بقول میرؔ،گلی میں اس کے گیا، سو گیا نہ بولا پھر، میں میرؔ میرؔ کر اس کو بہت پکار رہا۔کچھ مدت بعد اسی نمبر پر دوبارہ کال کی تو معلوم ہوا کہ ہمارے عبدالواحد صاحب اور ان کی تنہائی کب کے تہ خاک بسرام کر چکے۔ حافظ ؎
نسیم زِلف تو چون بگزرد بتربت حافظؔ
ز خاک کالبدش صد ہزار نالہ برآید