ہاروڈ کیلی‘ نیو جرسی کے ایک قصبہ کیمڈن میں پیدا ہوا تھا۔ 1858کا برس تھا۔ کیلی کا بچپن کافی مشکل تھا۔ وہ کچھ بننا چاہتا تھا۔ مگر وسائل کی تنگی سامنے آ جاتی تھی ۔ حد درجہ خوددار بچہ تھا۔ محنتی بھی اور اسے اپنے اوپر مکمل اعتماد تھا۔ اسکول کی فیس ادا کرنے کے لیے مزدوری کرتا تھا۔ قصبہ میں لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کام سرانجام دیتا تھا۔ جیسے کسی کی گروسری کا بوجھ اٹھا لیا‘ کسی کی گاڑی صاف کر دی‘ کسی کے گھر کے شیشے صاف کر ڈالے۔بہر حال بچے کی محنت کے عوض‘ اسے لوگ اتنے پیسے ضرور دے دیتے تھے کہ اسکول کی فیس بروقت ادا ہو جائے۔
کیلی‘ اسکول کا ہوم ورک بڑی توجہ سے کرتا تھا۔ عام بچوں کی طرح‘ اسے بھی کھیلنے کودنے کا دل چاہتا تھا مگر حالات کی سختی اسے ‘ اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ ایک دن اسکول سے گھر آیا۔ تو اس کے پاس کھانے کے پیسے نہیں تھے۔ دوچار گھنٹے‘ بھوک برداشت کی ‘ مگر جب معاملہ حد سے باہر ہو گیا ۔ تو فیصلہ کیا کہ محلہ میں کسی کو کھانے کا سوال کر دیتا ہے۔ اس ارادے سے بڑی مشکل سے ایک بڑے سے گھر کے باہر گیا۔ دستک دی۔ تو ایک نوجوان لڑکی نے دروازہ کھولا۔ کیلی کے پاس ‘ بھیک مانگنے والی زبان نہیں تھی۔
اس کے اعصاب شل ہو گئے۔ اور ہکلانے لگا۔ لڑکی نے پوچھا کہ بیٹا ‘آپ کو کیا چاہیے۔ بچے نے بڑے ضبط سے پانی کا ایک گلاس مانگا۔ حالانکہ وہ تو بھوک سے بلبلا رہا تھا۔ مگر اس کی عزت نفس نے اجازت نہ دی کہ کھانا مانگ سکے۔ اور یہ کہے کہ بھوکا ہوں۔ نوجوان لڑکی نے اسے غور سے دیکھا۔ گھر میں آنے کا کہا۔ صوفہ پر بٹھاکر باورچی خانے میں گئی۔ واپسی پر‘ اس کے ہاتھ میں دودھ کا ایک گلاس تھا۔ بچہ نے بڑی تہذیب سے دودھ پیا۔ کوئی یہ گمان نہیں کر سکتا تھا کہ بھوک سے تڑپ رہا ہے۔ کیلی نے لڑکی کا شکریہ ادا کیا۔ اور واپس اپنے معمولی سے کمرے کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس کے ذہن میں لڑکی کے اس بھلے کام نے گھر کر لیا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔
کیلی اس قصبے سے نکل کر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے لگ گیا۔ 1882تک وہ یونیورسٹی آف پنسلونیامیں ڈاکٹر ی کی تعلیم مکمل کر چکا تھا۔ اس پر خار سفر میں حکومت اسے تعلیمی وظیفہ دیتی رہی۔ محنت کی بدولت اس کے رستے آسان تر ہوتے چلے گئے۔ایک دن ہاروڈ اسپتال میں کام کر رہا تھا ۔ کہ اسپیکر پر آواز آئی۔ کہ ایک خاتون مریض کو گائنی کی سرجری کی ضرورت ہے۔ کیلی جہاں بھی ہے۔ فوراً آپریشن تھیٹر پہنچ جائے۔ جب آپریشن تھیٹر پہنچا ۔ اور مریض کو دیکھا۔ تو فوراً پہچان گیا۔ کہ یہ وہی نیک لڑکی ہے‘ جس نے بیس برس پہلے‘ اسے دودھ کا ایک گلاس پلایا تھا۔ اور اس کی عزت نفس بھی مجروح نہیں کی تھی۔ یعنی کوئی احسان بھی نہیں جتایا تھا۔ مگر لڑکی جو اب خاتون بن چکی تھی۔
کیلی کو بالکل نہیں پہچان سکی۔ خاتون کی سرجری ہوئی۔ اور اکیس دن اسپتال رہی ۔ کیلی نے اپنے سیکریٹری کو ہدایت کر رکھی تھی کہ جب اس خاتون کا بل آئے تو پہلے اسے دکھایا جائے۔ کیلی‘ روز اس خاتون کے وارڈ میں جاتا اور خیریت معلوم کرتا۔ جب صحت یاب ہو گئی تو اسے اسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ خاتون بل کا انتظار کر رہی تھی۔ اورپریشان تھی ۔ کیونکہ پرائیویٹ سرجری امریکا میں حد درجہ مہنگی تھی اور ہے۔ ذہن میں مختلف خیالات بگولوں کی طرح رقص کر رہے تھے۔
بل کتنا ہوگا؟ کیا اپنی بقیہ عمر اسپتال کے بل کو اتارتے ہوئے گزار دے گی؟ اس کا بڑھاپا کیسا گزرے گا؟ بہر حال حسب ضابطہ بل بنایا گیا۔ اور ڈاکٹر کیلی کو پیش کر دیا گیا۔ بل کافی زیادہ تھا۔ چھ سو ڈالر کے لگ بھگ۔ کیلی نے بل کے آخر میں کچھ لکھا۔ اور اس کے بعد ‘ خاتون کو بھیج دیا۔ جب اسپتال کا بل مریض کو پیش کیا گیا۔ تو پریشانی سے اس کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ بل پڑھا تو کافی زیادہ تھا۔ مگر آخر میں ڈاکٹر کیلی نے ایک جملہ لکھا ہوا تھا۔ ’’بل ادا ہو چکا ہے۔
یہ دودھ کے ایک گلاس کی قیمت ہے‘‘۔ خاتون کو کچھ پلے نہ پڑا۔ کیلی اس کے پاس گیا۔ یاد کروایا کہ دو دہائیاں پہلے‘ ایک بچہ‘ آپ کے گھر آیا تھا اور کمال مہربانی سے اسے ایک دودھ کا گلاس پلایا گیا تھا۔ وہ بچہ میں ہی تھا۔ خاتون کو بھولا ہوا واقعہ یاد آیا۔ تو اس کے آنسو نکل پڑے۔ ڈاکٹر کیلی بھی رو رہا تھا۔ بہر حال خاتون کو بڑے احترام سے اسپتال سے روانہ کیا گیا۔ کیلی امریکا بلکہ دنیا کا معروف ترین سرجن بن چکا تھا۔ اس نے اپنے شعبہ میں 550 مضامین اور کتابیں لکھیں۔ مگر اس کا اصل کارنامہ تین آدمیوں کے ساتھ مل کر جان ہوپکن یونیورسٹی کا قیام تھا۔ وہ‘ اس عظیم یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھا۔ اس کا نام‘ یونیورسٹی میں آج بھی جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔
گمان ہے کہ ڈاکٹر میورڈ کی یہ سچی کہانی‘ آپ کو سوچنے پر مجبور کر دے۔سوال یہ ہے کہ نیکی دراصل ہے کیا؟ کیا اسے کسی خصوصی سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے؟ کیا نیک کام کرنے کا اعلان ‘ ڈھول بجا بجا کر کرنا چاہیے؟ یہ حد درجہ مشکل معاملہ ہے اور اس کا کوئی ایک جواب نہیں ہے۔ اس پیچیدہ سوال کے متعدد جوابات ہیں جو دیکھنے میں شاید متضاد نظر آئیں۔ مگر شاید سارے درست ہوں۔ یہ مختلف بات اس لیے درج کر رہا ہوں۔کہ برطانیہ میں جب ایک کورس کرنے گیا۔ تو کلاس میں پروفیسر نے بورڈ پر ایک سوال درج کیا۔ سب طالب علموں سے اس کا جواب مانگا ۔
طالب علم‘ پوری دنیا سے آئے ہوئے تھے۔ سب نے اپنی اپنی فہم کے مطابق بات کی۔ معاملہ یہ بھی تھا کہ دیے گئے جوابوں میں کافی اختلاف تھا۔ اس پر پروفیسر نے کہا۔ کہ پوری دنیا میں کوئی بھی ایسا سوال وجود نہیں رکھتا جس کا جواب صرف اور صرف ایک ہو۔ بتانے لگا۔ کہ کسی بھی سوال کے متعدد جواب ہو سکتے ہیں۔ جو اختلاف رکھنے کے باوجود سارے کے سارے درست ہوں۔ اسے انگریزی میں Competing Solutaions بھی کہا جا سکتا ہے۔ تو جناب نیکی کی کوئی تعریف کرنا ناممکن ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔ جسے نیکی بتایاجا رہا ہے ۔
وہ دراصل نیکی ہو ہی نا۔ میرا خیال ہے کہ نیکی کی کوئی بھی تعریف ڈھونڈنے کے بجائے ‘ شعوری کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے چھوٹے چھوٹے کام کیے جائیں‘ جس سے دوسرے انسانوں کی زندگی میں آسانی آئے۔ ضروری نہیں کہ کوئی ایسا بڑا کارنامہ انجام دینے کی کوشش کی جائے‘ جس سے انسان کی واہ واہ ہو ۔ اس کے برعکس ہر شخص کو چاہیے کہ ذاتی سطح پر صلے کی تمنا کیے بغیر ایسے بہتر کام کرے‘ جس سے عام لوگوں کا بھلا ہو۔ اس کے علاوہ دنیا میں کوئی ایسا مذہبی‘ سماجی‘ یا اقتصادی ڈھانچہ نہیں بن سکتا‘ جس میں اچھے کام تصویر کی طرح سج جائیں۔
دراصل بھلے کاموں کا صرف انسانیت سے تعلق ہے۔ وہ کسی بھی جغرافیہ حدود یا فلسفہ کے ضبط سے باہر ہیں۔ بلکہ کوئی بھی ایسا فریم نہیں ہے جو اتنا قوی اور بڑا ہو۔ جو نیکی کو اپنے اندر سمو لے۔ اب اس سکے کی دوسری طرف توجہ دلاناچاہتا ہوں۔ کیا اچھے کاموں کی تشہیر کرنی چاہیے۔ ذاتی طور پر تشہیر کے خلاف ہوں۔ اردگرد‘ ایسے دھوکے باز موجود ہیں۔ جو بھلائی کا پھندہ لگا کر ‘ ایسے کام کرتے ہیں‘ جن سے ان کی جے جے کار ہوجائے۔ لوگ انھیں چندہ پر چندہ دے ۔ اور وہ ’’عظمت کے مینار ‘‘ پر چڑھ کر ‘ اپنا قد دوسرے سے نمایاں کر پائیں۔ مگر تشہیر کا ایک فائدہ ضرور ہے۔
لوگوں میں شعور کی سطح بہتر ہوجاتی ہے۔ اور انھیں دوسروں کے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا جاسکتاہے۔ معاشرے میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ ہوتے ہیں۔ جو سماجی کاموں کو ایک سیڑھی کے طور پر استعما ل نہیں کرتے۔ اس کی درخشاں ترین مثال ‘ عبدالستار ایدھی مرحوم تھے۔ انھوں نے ان گنت لوگوں کا صرف اور صرف انسانیت کی بنیاد پر مستقبل سنوارا۔ کسی بھی جزا کی خواہش کے بغیر‘ ان تھک محنت کرتے رہے ۔ اس عظیم شخص نے اپنے کپڑے بھی نئے نہیں بنائے ۔ بلکہ کسی مردہ آدمی کے استعمال شدہ کپڑوں پر اکتفا کیا۔ پوری عمر نیا جوتا نہیں پہنا۔ بلکہ پرانی سوفٹی ٹائپ عام سے سلیپر پہنتے رہے۔ اسکوٹر کو خود اور اپنی اہلیہ کے لیے استعمال کرتے رہے۔
دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس نظام قائم کیا۔ چندے کی رقم میں سے ایک دھیلا بھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا۔ خیر ایدھی صاحب ‘ کسی بھی سماج میں بہت ہی نایاب لوگ ہوتے ہیں۔ ان جیسے لوگ کسی بھی خطے کے لیے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں۔اگر وہ مغرب میں ہوتے تو کم سے کم انھیں نوبل پرائز ملتا۔ اور اس میں ان کی عزت نہیں‘ بلکہ نوبل پرائز کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا۔ عرض کرونگا کہ آپ جو بھی ہیں۔ جس بھی سطح پر بھی زندہ ہیں۔ جس بھی ملک یا سماج میں سانس لے رہے ہیں۔ عادت بنا لیجیے کہ ضرورت مندوں کی بلا تمیز اور بلا غرض خدمت کرتے رہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہاروڈ کیلی کی طرح‘ آپ کو ضرورت کے وقت ’’دودھ کا ایک گلاس ‘‘ مل جائے۔ جس سے آپ سہولت میں آ جائیں۔ فیصلہ فرمایے اور قدرت کو موقع دیجیے ‘ کہ آپ کو بھی دودھ بھرا گلاس دے سکے!