29 C
Lahore
Monday, May 26, 2025
ہومغزہ لہو لہوبھارت کی ابلاغی خود کشی

بھارت کی ابلاغی خود کشی


جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے منصب پر ترقی کیا ملی، پڑوس پر ہذیانی کیفیت طاری ہوگئی۔ ایرے غیرے تجزیہ کار، ریٹائر فوجی اور سفارت کار ہی نہیں خود نریندر مودی بوکھلائے پھرتے ہیں اور پاکستان میں رونما ہونے والے اس واقعے پر ان کے دہانے جھاگ اگل رہے ہیں۔ مودی صاحب نے سوال اٹھایا ہے کہ آخر انھیں کس کارنامے پر ترقی دی گئی ہے؟ ایسا کہتے ہوئے وہ تین رافیل طیاروں سمیت وہ چھ ساتھ لڑاکا طیارے بھول گئے جوبیچ میدان کے کھیت رہے۔

انھیں اپنی وہ عرض داشت بھی بھول گئی جس کے طفیل انھیں جنگ بندی کی رعایت ملی۔ مودی صاحب کی تلملاہٹ اپنی جگہ ذرایع ابلاغ پر جلوہ افروز ہوکر آتش بازی کرنے والوں کا حال ان سے بھی پتلا ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ ایمان تقویٰ اور جہاد فی سبیل جیسے سنہری اصول کی تشریح بھی اتنے مضحکہ خیز طریقے سے کر رہے ہیں کہ ان عقل پر رحم آتا ہے۔ اس پر مجھے بھارتی صحافی ساکشی جوشی کی یاد آئی اور ان کی وجہ سے کرٹ لیگ اور گلیڈی اینگل لینگ کی۔ یہ دونوں میاں بیوی اٹلی سے ترک وطن کر کے امریکا پہنچے تو ایک کارنامہ انجام دیا۔ ایک ایسے مرض کی نشان دہی کی جس میں آج بھارت مبتلا ہے۔

چند دن ہوتے ہیں، استنبول میں برادران عزیز فہد شہزاد وڑائچ اور عبداللہ زبیر میر کی معیت میں برادر محترم عمر فاروق قورقماز سے ملاقات ہوئی۔ برادرم قورقماز کا موضوع مسلم دنیا اور اس کی تحریکیں ہے۔ وہ مسلم دنیا کے حالات اور اس کے تعلق سے وہاں رونما ہونے والے واقعات سے مسلسل باخبر رہتے ہیں۔

استنبول میں ان سے ملاقات بڑی خوش گوار اور مفید رہی۔ مسلم دنیا اور خاص طور پر پاکستان میں جمہوری عمل صدمات سے کیوں دوچار رہتا ہے؟ ہماری بیشتر گفتگو اسی موضوع کے گرد گھومتی رہی۔ ضمناٌ مذہبی طبقات کی کیفیات کا تذکرہ بھی ہوا۔ سوال یہ تھا کہ سماج میں بعض اوقات یہ طبقات اجنبی کیوں محسوس ہوتے ہیں؟ اس ضمن میری رائے وہی ہے جسے لینگ جوڑے نے 1967 میں ایک نظریے کی صورت میں پیش کیا۔ علمی دنیا میں اس نظریے کو میڈیا ملیس تھیوری کے نام سے یاد کیا جاتا یے۔

یہ تھیوری جسے عمل کی میزان پر پرکھ کر ثابت کیا گیا ہے، بڑی دلچسپ ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جب کسی سماج کے ذرایع ابلاغ میں جھوٹ کا چلن عام ہو جاتا ہے اور وہ کچھ خاص مقاصد کے لیے تصادم کو ہوا دیتے ہیں، کشیدگی اور تشدد کو اس کی اصل مقدار سے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں سماج میں بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی بے چینی کو میڈیا ملیس کا نام دیا گیا ہے جسے عام فہم الفاظ میں ابلاغی اضطراب کہا جا سکتا ہے۔

اضطراب کی یہ کیفیت بڑی خطرناک ہے۔ اس کے نتیجے میں عام آدمی جائز نظام اور تصورات سے بیزار ہو کر فرار کے راستے تلاش کرتا ہے۔ نظام ریاست میں جائز آئینی اور جمہوری نظام سے مایوسی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی سبب ہے جس کے باعث جمہوری معاشروں میں جمہوریت ناکام ہو جاتی ہے اور لوگ آمریت کا خیر مقدم کرنے لگتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مظہر ہے جس کا کوئی منطقی جواز سمجھنے سے لوگ عام طور قاصر رہتے ہیں۔ یوں یہ تاثر قائم ہو جاتا ہے کہ کوئی معاشرہ ابھی تک شعور کی اس منزل پر نہیں پہنچ سکا جہاں آمریت کے نقصانات اور جمہوریت کی برکات کا فہم پیدا ہو سکے۔

بالکل اسی طرح جب کسی نظریے یا عقیدے سے تعلق رکھنے والی قیادت اپنے پلیٹ فارم سے اپنے عقائد اور اس کے راہ نما اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر مخالفین کے لیے تکلیف دہ زبان استعمال کرے گی یا تشدد کے فروغ کا ذریعہ بنے گی تو اس کے نتیجے میں عام لوگ اس سے بے گانگی اختیار کر لیں گے۔

حالیہ پاک بھارت مختصر جنگ میں بھارتی میڈیا جسے ‘گودی ‘میڈیا کا توہین آمیز خطاب پہلے سے ہی حاصل تھا، کیا کچھ کرتا رہا ہے، اس کی کچھ جھلکیاں ساکشی جوشی نے اپنے ویلاگ میں پیش کی ہیں۔ وہ سوال اٹھاتی ہیں کہ بھارتی ذرایع ابلاغ نے یہ دعویٰ کیوں کیا کہ بھارتی افواج پاکستان کی حدود میں نہ صرف داخل ہو گئی ہیں بلکہ وہ اس کے دارالحکومت اسلام آباد پر قابض بھی ہو چکی ہیں۔ وہ بھارتی میڈیا کے اس دعوے پر بھی سوال اٹھاتی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ کراچی بحری اڈے کو بھارتی افواج نے تباہ کر دیا ہے۔

انھوں نیوز چینلوں پر جنگی سائرن بجا بجا کر خوف و ہراس پھیلانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہی طرز عمل ہے جس کی وجہ سے وہ خود اور عوام کی ایک بڑی تعداد خبر کے حصول کے لیے بھارتی نیوز چینلوں کو قابل اعتماد نہیں سمجھتی اور انھوں نے ان چینلوں کو دیکھنا بند کر دیا ہے۔ میڈیا ملیس تھیوری کا یہ دوسرا پہلو ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ ذرایع ابلاغ جب جھوٹ اور بہتان کا سہارا لینے لگیں تو صارفین فوری طور پر ان کی طرف متوجہ ضرور ہوتے ہیں لیکن بالآخر تنگ آکر انھیں خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ یہ حادثہ ہمارے یہاں مختلف وجوہات کے باعث ہو چکا ہے اور یہی خبر ہمیں بھارت سے بھی مل رہی ہے۔

ساکشی جوشی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے بھارتی ذرایع ابلاغ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے اتھلے پن کے بارے میں بہت پہلے ردعمل کا اظہار کیا۔ اب وہ تنہا نہیں ہیں، ان کی آواز میں بہت سے دوسرے بھی آواز ملا رہے ہیں۔ یہ حوصلہ افزا ہے۔ اگر بھارتی ذرایع ابلاغ سے وابستہ لوگوں کی اکثریت ان کی فکر مندی میں شریک ہو گئی تو اس کے نتیجے میں ہندو سماج میں پیدا ہونے والے اضطراب کی رفتارمیں نہ صرف ٹھہراؤ پیدا ہو جائے گا بلکہ خطے میں امن اور استحکام کو بھی راستہ مل جائے گا لیکن سر دست زیادہ امید نہیں ہے کیوں کہ خود حکومت اور ریاست اس عمل میں شریک ہو گئی ہے۔

اس کی تازہ مثال بھارتی وزارت خارجہ کی وہ ٹویٹ ہے جس میں کوئی پرانی وڈیو استعمال کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے بھارت پر شاہین میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ بھارت کی طرف سے اس الزام نما انکشاف کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان نے بیلاسٹک میزائل استعمال کر کے دراصل ایٹمی جنگ شروع کر دی تھی۔ پاکستان پر بھارتی حکام کا یہ الزام میڈیا ملیس کی ذیل میں آتا ہے جس کے اثرات پلٹ کر بالآخر الزام لگانے والے پر ہی پڑتے ہیں۔

یہ اثرات جمہوری نظام اور ذرایع ذرایع ابلاغ پر عوام کے اعتماد متزلزل کرنے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے نتیجے میں ریاست پر سے اعتماد اٹھنے لگتا ہے۔ میڈیا ملیس یا ابلاغی اضطراب بے پناہ نفرت سے جنم لیتا ہے۔ نریندر مودی صاحب اور ان کے ہم خیال بھی اسی کیفیت میں ہیں۔ بھارت میں علیحدگی کی بہت سی تحریکیں پہلے سے ہی موجود تھیں۔ اب انھوں نے انھوں ریاستی میڈیا ملیس کو بطور ہتھکنڈہ استعمال کر کے خود اپنی تباہی اور انتشار کی بنیاد مضبوط کر دی ہے کیوں کہ حالیہ جنگ کے زمانے میں پیدا ہوئے والے میڈیا ملیس نے عوام کو ریاست سے مایوس کردیا ہے۔ بھارت کے لیے یہی سب سے بڑا خطرہ ہے جس کا شعور اسے بالکل نہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات