27 C
Lahore
Thursday, May 22, 2025
ہومغزہ لہو لہوبجٹ اور خود انحصاری کی منزل

بجٹ اور خود انحصاری کی منزل


پاکستان کا معاشی بجٹ اب قرضوں پر انحصارکرتا ہے۔ ایک مدت سے بجٹ بنانے سے پہلے اس کے خد و خال طے کرنے سے قبل کمپنی بہادر کا انتظار ہوتا ہے اور وہ ایسے آتے ہیں جیسے انھوں نے دیکھا اور فتح کر لیا بلکہ فتح کرنے کے علاوہ بجٹ کے اعداد و شمار کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے یا منظور کرنے کے لیے آئے ہیں۔

اپنے احکام دیتے ہیں، ہم بجا لاتے ہیں لیکن اب ہمیں بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔ 3 ارب 40 کروڑ ڈالر ادا کرکے نائجیریا نے آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ ہمیں بھی جلد ہی قرض پر انحصار کو خیرباد کہنا ہوگا کیونکہ 7 مئی 2025 سے حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ مغربی سرحدوں پرکشیدگی کے ساتھ ایک عرصہ ہوا مشرقی سرحدوں پر کشیدگی اور پھر ملک کے اندر متواتر مسلسل بم دھماکوں، ٹرین حملوں، اسکول کے معصوم بچوں پر حملوں، نہتے شہریوں پر حملوں اور بہت کچھ سہہ سہہ کر اب یہ قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی ہے، بس اس کا دم خم بجٹ پر نہیں چلتا۔

اس لیے حکومت کو پالیسی بدلنی ہوگی اب قرض سے نجات، کرپشن سے نجات، تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس لینے میں کمی کے ساتھ اشرافیہ، دولت مندوں، کثیر اخراجات کرنے والوں، شاہی مزاج رکھنے والوں، بڑی بڑی لگژری گاڑیاں رکھنے والوں، بڑے بڑے زمینداروں سے اب ٹیکس جتنا بنتا ہے وہ سارا لینا ہوگا اور حکومت اپنے طور پر غیر ضروری سرکاری اخراجات میں کمی لے کر آئے، کئی عشرے ہوئے ملک کی درآمدات اب بھاری پڑنے لگی ہیں، کیونکہ ڈالر خرچ کرکے پہلے درآمدات کی جاتی تھیں، کیپٹل گڈزکی خرید پر بھاری مشینریوں کی درآمدات پر، بلڈوزر، ٹرک، بسوں اور بہت سی ایسی اشیا و مصنوعات جن کی ضرورت ملکی معاشی ترقی کے لیے ہوتی تھیں، ان کی خرید پر مشینریاں کارخانوں میں نصب کروا کر ان کے ارد گرد ملازمین کا جھرمٹ پیدا کرنے کے لیے ہوئی تھیں۔

کیپٹل گڈز منگوا کر مصنوعات کو چار چاند لگانا مقصود ہوتا تھا۔ اب سنا ہے بڑی بڑی لگژری گاڑیوں پر عائد ٹیکسوں میں کمی کی جائے گی۔ ایسا کرنا ہوگا کیونکہ اس میں صنعتی ممالک کا فائدہ ہے۔اب اس طرح کی غیر ضروری درآمدات سے نکلنا ہوگا کیونکہ بہت سارا ڈالر خرچ ہو جاتا ہے پھر ملک میں ڈالرزکی کمی ہو جاتی ہے، قرض کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اب دیکھیے ایک ڈالر 283 روپے تک جا پہنچا ہے۔

نائیجریا نے کمال کر دکھایا، وہاں کے سربراہ کو ایک فون کر دینا چاہیے مبارک باد کے ساتھ طریقے معلوم کریں، سنا ہے کرپشن کو انھوں نے سخت کنٹرول کیا ہے، اب وہ اپنی مقامی پیداوار پر زور دیں گے۔ درآمدات پر انحصار نہیں کریں گے، 2024 میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئی ایم ایف سے جو قرضہ کووڈ19 کے دوران لیا گیا تھا، اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ لہٰذا 2025 میں خواب نے تعبیر کی شکل اختیار کر لی۔ ہم بھی ایسے خواب کی تعبیر کے بارے میں سوچیں کیونکہ پاکستان پانی کی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہو گیا ہے اور اس نے یہ جنگ اپنے پیروں پرکھڑے ہو کر لڑنی ہے

یہ بجٹ ہی ہے جو ہر سال ہماری محرومی، ہمارے وسائل جن سے ہم استفادہ نہیں کر پاتے اور قرض کی آسان وصولی کی طرف چلے جاتے ہیں اور پھر قسطوں اور سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لیتے ہیں۔اس مرتبہ پاکستان جس قسم کے حالات سے گزر رہا ہے ان حالات سے نمٹنے کے لیے 2 جون کو پیش ہونے والا بجٹ ہمیں خبردار کر دے گا اور آگاہ کر دے گا کہ ہم نے مشکل مالی حالات سے نمٹنا ہے۔

اس بجٹ کو پیش کرنے سے قبل آئی ایم ایف سے مذاکرات ہو رہے ہیں، بجٹ ایسا ہو کہ جس سے کسان کے لیے کھاد، کیڑے مار ادویات مہنگی نہ ہوں، اور اس کی محنت کی کمائی پر پانی نہ پھر جائے۔ مزدور کو جو دیہاڑی مل رہی ہے اس کی قوت خرید کم نہ ہو جائے۔ تنخواہ دار پر مزید ٹیکس کا بوجھ نہ لاد دیا جائے۔ ملک میں روزگار میں مزید اضافہ ہو اور یہ اضافہ ایسا ہو کہ ہر بے روزگار اس بجٹ کے نتیجے میں برسر روزگار ہو جائے اور پنشنروں کا خصوصی خیال رکھنا ہوگا کیونکہ بڑھاپے میں ان پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات