32 C
Lahore
Wednesday, May 21, 2025
ہومغزہ لہو لہوایک سبق آموز روداد - ایکسپریس اردو

ایک سبق آموز روداد – ایکسپریس اردو


سہیل خان پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں۔ وہ پی پی 240 بہاولنگر سے آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہوئے ہیں۔ تاہم یہ ذہن میں رکھیئے کہ وہ سنی اتحاد کونسل یا تحریک انصاف والے آزاد امیدوار نہیں تھے۔

وہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو ہرا کر منتخب ہوئے ہیں۔اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ حقیقی آزاد رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔بعد میں انھوں نے مسلم لیگ (ن) کو جوائن کیا تھا۔ وہ ایک صحافی بھی ہیں۔ بہاولنگر میں وہ صحافت بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اپنے خدمت خلق کی وجہ سے وہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو ہرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

سہیل خان کی کہانی بھی عجیب ہے۔ وہ آجکل اپنی خدمت خلق کے جذبہ کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ میں نے ان کی کہانی سنی ہے، سوچا آپ کے ساتھ بھی شیئر کروں۔ پانچ جنوری کی بات ہے۔ ان کے حلقے میں مسافر بس اور کوسٹر کا حادثہ ہوا، چار لوگوں موقع پر ہی جان سے چلے گئے جب کہ کئی زخمی ہوئے۔ یہ ایک المناک حادثہ تھا۔میں نے اس حادثے کی رپورٹ دیکھی ہے،اس میں لکھا ہے کہ یہ المناک حادثہ بس ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔

بہر حال جب اس ایکسیڈنٹ کی خبر علاقے کے ایم پی اے سہیل خان کو ملی تو وہ حلقے میں موجود تھے۔ وہ فوری موقع پر پہنچے، زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کا بندو بست کیا۔ اپنی گاڑیوں کو بھی زخمیوں کو استعمال کیا۔ اس کاوش کی وجہ سے کچھ جانیں بچ بھی گئیں۔

زخمیوں کو علاج کی سہولت یقینی بنانے کے بعد ایم پی اے صاحب حادثے میں جاں بحق ہوجانے والوں کی تدفین میں لگ گئے۔ وہ درد دل رکھنے والے انسان ہیں ورنہ جائے وقوعہ کے دورے کے بعد وہ گھر جا سکتے تھے اور چند روز کے بعد پروٹوکول کے ساتھ مرحومین کے لواحقین سے تعزیت کے لیے ان کے گھروں میں جا سکتے تھے۔ لیکن سہیل خان ایسا نہیںکیا۔ وہ اس ایکسیڈنٹ سے کافی رنجیدہ تھے۔ انھیں لوگوں کے مرنے کا بہت دکھ تھا۔

اس ایکسیڈنٹ کے بعد سہیل خان نے پولیس کے اعلیٰ عہدیدارن سے کہا کہ علاقہ میں بہت ایکسیڈنٹ ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ڈرائیورز کی غیر ذمے دارانہ ڈرائیونگ ہے ۔ لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غیر معیاری بسیں بھی علاقہ میں چل رہی ہیں۔ ان بسوں کا فٹنس سرٹفکیٹ نہیں ہے۔

انھوں نے پولیس سے کہا کہ سڑکوں پر بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کے چلنے والوں بسوں کو بند کیا جائے۔ سہیل خان کا یہ موقف ہے کہ عالمی معیار یہی ہے کہ بس کے ڈرائیور کی سیٹ نیچی ہوتی ہے تاکہ وہ سڑک کے برابر ہوں۔ یہ جو بسوں کے ڈھانچے پاکستان میں بنتے ہیں ان میں ڈرائیور کی سیٹ اونچی بنا دی جاتی ہے۔ جو خلاف قانون ہے۔ سہیل خان کا موقف ہے کہ ایسی بسیں جن کے ڈرائیور کی سیٹ اونچی ہے، انھیں سڑک پر چلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

سہیل خان نے اس ضمن میں پنجاب اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کی بھی کی ۔ انھوں نے ایکسیڈنٹس کی تفصیل بھی پنجاب اسمبلی میں پیش کی۔ ان کی تقریر بس مالکان کو پسند نہیں آئی ، انھیں ہاتھ ہلکا رکھنے کے لیے سفارشیں آئیں۔

ان کے ساتھی ان کو سفارشیں کرنے لگے۔ لیکن جس تواتر سے ٹریفک حادثے ہورہے ہیں اور جتنی بڑی تعداد میں مسافروں کی اموات ہورہی ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے عوام کے منتخب نمایندوں کو بھی تو کچھ نہ کچھ احساس ہونا چاہیے اور جتنا ہو سکے ، وہ حکومت کو آگاہ کریں کہ ٹریفک حادثات کس طرح ہوتے ہیں؟ کیوں ہوتے ہیں ؟ ذمے دارکون ہے؟ اور ان حادثات کی روک تھام کیسے ہوسکتی ہے؟ ایم پی اے سہیل خان کے خیال میں وہ حق بات کررہے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کی جانوں معاملہ ہے۔ اس لیے کوئی لچک نہیں ہونی چاہیے۔

 اب آگے سنیئے!11مئی کو ایم پی اے سہیل خان کا بیٹا اپنی گاڑی میں جا رہا تھا کہ ایک بس نے گاڑی کو بری طرح ٹکر مار دی، ایم پی اے سہیل خان کا بیٹا شدید زخمی ہوا۔ سہیل خان کی رائے میں جب وہ ٹریفک حادثاث کے حوالے سے اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ رہے تو انھیں سخت پیغام دینے کے لیے یہ ایکسیڈنٹ کرا دیا گیا ہے۔

یہ ان کے لیے پیغام ہے کہ خاموش ہو جاؤ ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔ سہیل خان رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔ انھوں نے آزاد جیت کر حکومتی جماعت جوائن کی ہے، میرا خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں تو ان کو انصاف ملنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن مسلہ یہ ہوا ہے کہ ایم پی اے موصوف جس قسم کا پرچہ کرانا چاہتے ہیں، پولیس نے ویسا درج نہیں کیا۔ وہ سمجھتے ہیں ان کے بیٹے کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے اوروہ نامزد قتل کرنے کی سازش کا پرچہ درج کرانا چاہتے تھے۔ لیکن مقامی پولیس نے ایکسیڈنٹ کی ہی ایف آئی آر درج کی ہے۔

اس کے بعد سہیل خان نے پنجاب اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس جمع کروایا۔ اس توجہ دلاؤ نوٹس میں انھوں نے اپنے خاندان پر حملہ کا ذکر کیا۔ لیکن اس توجہ دلاؤ نوٹس سے بھی کچھ نہیں ہوسکا ۔ پھر کیا ہوسکتا ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس طرح کے کاموں کیا ہوتا ہے۔ رکن پنجاب اسمبلی نے صلح کرنے میں ہی عافیت جانی۔ یہ رودار بیان کرنے کا مقصد کسی کو درست یا غلط ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بیان کرنا ہے کہ ہمارا نظام اتنا گیا گزرا ہے کہ ایک ایم پی اے اپنے لیے بھی کچھ نہیں کرسکتا ، یہ ایک واقعہ نہیں ہے۔

ایسا ہمارے معاشرے میں روز ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹرز پاکستان کا ایک بڑا طاقتور طبقہ ہے۔ اگر نظارہ کرنا ہو تو ٹرک اور بس اڈوں پر جاکر دیکھ لیں، آپ کو لگے کا کہ ان سے طاقتور کوئی نہیں ہے۔ ایک ایم پی اے ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لیکن پنجاب حکومت کو تو کوئی پالیسی بنانی چاہیے۔ ایک ایم پی اے تو ہوسکتا ہے ، کمزور ہو لیکن حکومت تو کمزور نہیں ہوتی ، ریاست کے سامنے کوئی کچھ نہیں ہوتا۔

پاکستان میں ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد دہشت گردی کی وارداتوں میں مارے جانے والوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ کراچی میں تو ڈمپرز کی ٹکروں سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہوئی ہے کہ وہاں ایم کیو ایم باقاعدہ احتجاج کے لیے باہر نکلی‘ جماعت اسلامی بھی احتجاج کرتی ہے حتی کہ پیپلز پارٹی جس کی حکومت ہے وہ بھی حادثات پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ایسے میں پنجاب میں بسوں اور دیگر موٹر وہیکلز حادثات کی شرح مزید بڑھی تو یہ عوامی احتجا ج کی بھی شکل اختیار کر سکتی ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات