33.1 C
Lahore
Tuesday, May 20, 2025
ہومغزہ لہو لہوکٹھن وقت گزر جاتا ہے

کٹھن وقت گزر جاتا ہے


کبھی کبھی آپ اپنے اردگرد چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بھی گہرائی سے مشاہدہ کرتے ہیں، جیسے گذشتہ دنوں میں نے کیا۔ یہ ہمارے محلے کا ایک درخت ہے، جو کہ کافی عرصے سے میری توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا، دیکھنے میں تو یہ کوئی عام سا درخت ہی لگے گا، لیکن اگر غور کیجیے، تو اللہ کی بنائی ہوی ہر مخلوق ہمارے لیے خیر کا سبق میں اندر سموئے ہوئے ہوتی ہے، جب ہی تو اللہ قرآن میں ہمیں بار بار غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔

سے پہلے، میں اس درخت کی بیرونی حالت کی منظر کشی کروں گی۔ ساتھ ہی گزشتہ دنوں یہ کیسا تھا، اس کا بھی ذکر کیا جائے گا۔ ذرا غور سے اگر اس درخت کے نچلے حصے کو دیکھیں، تو آپ کو نظر آئے گا کہ اس کا نچلا حصہ کچھ حد تک جلا ہوا ہے۔

تو ہوا کچھ یوں کہ سردیوں کے دنوں میں ہم انسانوں کی طرف سے پھیلائے گئے کچرے کو ٹھکانے لگانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اُسے جلا دیا گیا، یہ غیر ذمہ دارانہ عمل اس بیپروائی سے انجام دیا گیا کہ جس کی وجہ سے درخت کے نچلے حصے کو نقصان پہنچا۔ گذشتہ سردی سے پہلے اس درخت کے پتے جھڑ چکے تھے اور وہ ایک بنجر درخت کی سی صورت پیش کر رہا تھا، جیسا کہ سردیوں میں اکثر درخت اس عمل سے گزرتے ہیں، یہ ان کے لیے موسم کی سختی کو جھیلنے کا ایک مرحلہ ہوتا ہے، اس دوران ان کے سارے پتے جھڑ جاتے ہیں اور ان کی نشوونما بھی رک جاتی ہے۔

ایسے میں، میں منتظر تھی کہ کب یہ درخت دوبارہ زندگی کی رونق سے بھرے گا، اور کب اس کے پتے اور پھول محلے میں خوشیوں کے رنگ بکھیرنے لگیں گے۔ پھر فروری اور مارچ کا مہینا بھی ایسے ہی گزر گیا، مگر درخت کی خوب صورتی بحال نہ ہو سکی۔ ایسے میں میرے دل میں اس حوالے سے ایک ناامیدی جنم لینے لگی کہ شاید یہ درخت اپنا وقت پورا کر چکا ہو، لیکن اپریل کے مہینے میں اچانک اس میں چند ہرے پتے نمودار ہوئے، اور ساتھ ہی ساتھ سرخ پھول بھی کھلنے لگے، جیسے درخت اپنی رونق بحال کرنے کے لیے جاگ اٹھا ہو۔

اس کی صورت حال ایسی ہے کہ اگر ہم اس کی موجودہ ظاہری شکل دیکھیں، تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ درخت قدرے جھکا ہوا کھڑا ہے، شاید اس کی جڑوں کو جو نقصان پہنچا تھا، وہ اسے پوری طرح سیدھا کھڑا ہونے کی صلاحیت ختم ہو گئی، مگر جب اس کے اوپری حصے کی طرف نظر جاتی، تو حیرت ہوتی کہ درخت کی شاخوں پر چند ہی پتے ہیں، لیکن پھول بھی ایک خاص شوخی کے ساتھ اس پر کِھل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے پھول آس پاس کے دوسرے درختوں کی شاخوں تک پھیل رہے ہیں، جیسے وہ انھیں بھی خوب صورتی بخشنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

اس پورے منظرنامے سے جو تعلق میں نے انسانی زندگی سے قائم کیا ہے، وہ میرے لیے نہایت اہم اور دل چسپ ہے۔ البتہ، یہ میرا ذاتی نظریہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دیکھنے والے اُسے کسی اور زاویے سے دیکھیں، اور اس منظر سے کوئی اور سبق یا خیر کی بات اخذ کریں۔ میرا اس ساری منظر نگاری پر تجزیہ کچھ یوں ہے کہ جس طرح ایک درخت اپنے مشکل وقت میں خاموشی اور ساکت حالت  میں چلا جاتا ہے، اسی طرح ہم بھی اکثر زندگی کی تلخیوں، آزمائشوں اور درد بھرے لمحوں کے ہاتھوں کمزور ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں وقت کا جبر، مشکلات اور دکھ انسان کو توڑ دیتے ہیں، اس کی رفتار کو روک دیتے ہیں، اور وہ خود بھی ٹھیر جاتا ہے، حتیٰ کہ دوسروں کے لیے خیر اور بھلائی پھیلانے سے بھی رک جاتا ہے۔

یہ کٹھن وقت بعض اوقات اُسے اردگرد کے ماحول سے بیزار اور دور کر دیتا ہے۔ خواتین بالخصوص اس مرحلے سے کافی زیادہ گزرتی ہیں، لیکن اگر وہ فطرتِ سلیم پر ہوں، تو اس مشکل اور تغیر سے بھرپور لمحے میں بھی اپنی ذات سے اپنے اردگرد کے ماحول کو نقصان نہیں پہنچتا۔

وہ بس کچھ وقت لیتا ہے۔۔۔کبھی کم اور کبھی زیادہ۔۔۔ پھر تھم جاتا ہے، تاکہ اپنے اندر کی گہرائیوں کو سمجھ سکے، اپنے بکھرے ہوئے احساسات اور جذبات کو سمیٹ سکے، علمِ نافع کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی مشکلات کو پرکھ سکے، اور اپنے آپ کو دوبارہ خیر کے قابل بنا سکے، لیکن پھر جب وہ وقت کام یابی سے گزار لیتی ہیں، تو اسی درخت کی مانند ہوتی ہیں، جس کے تنے پر ’زخموں‘ کے نشان نمایاں تو ضرور ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، ان کی ذات پر بھی کچھ نشانات باقی رہ جاتے ہیں، مگر وہ ان نشانات سے بے نیاز، اور اپنی ذات سے بلند ہو کر، اپنے اردگرد خوشیاں، خوب صورتی اور خیر بانٹنے کے لیے پُرعزم ہو جاتی ہیں۔ اس طرح وہ تکالیف اور آزمائشوں کی بھٹی میں تپ کر، نکھر کر، اور نیا حوصلہ لے کر واپس آتی ہیں۔۔۔ زیادہ مضبوط، زیادہ باشعور، اور زیادہ بہتر صورت۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات