سطح زمین اور اس پہ بود و باش اختیار کرنے والی زندگی کو خلاء کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے قدرتی طور پر فضاء کے اطراف گیسوں کا وسیع خلاف موجود ہے جو بنیادی طور پر دو گیسوں یعنی ناٹیروجن (78فی صد) اور آکسیجن (21فی صد) ہوا کے کل حجم کے حوالے سے قدرتی تناسب اور بندش کے ساتھ موجود ہے جب کہ بقیہ 1فی صدکاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیس شامل ہوتی ہیں۔ گو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بہت ہی قلیل 0.33) مقدار میں موجود ہوتی ہے لیکن یہی مرکوزیت سطح زمین پر قدرتی ماحول کے توازن کو باقائدگی سے تعین کرنے اور برقرار رکھنے میں غیر معمولی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔
مثلاً وہ خوبصورت اور کمزور تعلق توازن جو حیات اور فضا کے درمیان موجود ہوتاہے وہ کائنات میں کاربن ڈائی آکسائیڈ چکر ہی کی بدولت ہے جو زمین پر زندگی کو رواں دواں رکھنے کا اہم وسیلۂ ہے، جس کی بنیاد عمل ضیائی تالیف (Photosyothesis) پر مبنی ہوتا ہے، جس کے توسط سے ہرے بھرے درخت اور پودے اپنی خوراک تیار کرتے ہیں۔ اس عمل کے دوران نباتات سورج کی روشنی سے توانائی پاتی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ہوا سے حاصل کرتے ہیں۔
لہٰذا اگر غور کیا جائے تو موجودہ دور میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی جو مقدار ہوا میں موجود ہے وہ ان قدرتی عوامل کا نتیجہ ہے جو ملین سالوں سے جاری ہے۔ یہ ’’کاربن چکر‘‘ ہوتا ہے جو دراصل ’’ضیائی تالیف‘‘ کا ضمنی پیداوار ہے جو نباتات اور حیوانات کے بغیر ممکن نہیں۔
مثلاً اگر صرف ہرے بھرے درخت زمین پر موجود ہوں تو جلدی ہی فضاء کاربن ڈائی آکسائیڈ سے محروم ہو جاتا ہے اور اس میں جو آکسیجن کی مطلوبہ مقدار موجود ہوتی ہے وہ حد سے تجاوز کر جاتا ہے۔ چنانچہ حیوان فضاء سے آکسیجن کی بڑی مقدار کو استعمال کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خارج کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے نباتات اور حیوانات متوازن طرز عمل رکھنےکے وجہ سے ہوا کا نارمل کمپوزیشن برقرار رہتا ہے۔
زمین پر موجود چٹانوں کی موسم زدگی کی وجہ سے بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ چکر شامل ہوتا رہتا ہے۔ اس عمل کے ذریعہ اس گیس کی کمی کاربونیٹ کی شکل میں ہوتا ہے جو نباتات اور حیوانات (بکٹیریل عمل) کے تحت اس وقت متوازن ہو جاتا ہے جب ان کے خلیوں میں ’’ڈی کمپوزیشن‘‘ کا عمل ہوتا ہے۔
یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ چشموں اور دریاؤں کے پانی میں حل ہو کر کاربونک ایسڈ (کاربن ڈائی آکسائیڈ ملا پانی) کی شکل میں سمندر میں شامل ہوتا رہتا ہے، کیوں کہ یہ ایسڈ کاربونیٹ سے بنی ہوئی چٹان کو ہائی کاربونیٹ میں تبدیل کر دیتا ہے جو پانی میں حل پذیر ہوتا ہے جو دریاؤں اور چشموں کے ذریعہ سمندر میں جا گرتے ہیں۔
جہاں نباتات گیس کو جذب کر لیتے ہیں اور کاربونیٹ کو سمندری جانور اپنے سخت حصوں کی تشکیل میں استعمال کر لیتے ہیں۔ جن میں خصوصی طور پر نباتاتی پلنگٹن (ڈائی ایئھز) اور حیواناتی پلنگٹن (ریڈیو لیرین) شامل ہوتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ مرکوزیت کے حوالے سے ایک ایسا کارندہ ہے جو سمندر (پانی) میں کاربونیٹ کی حل پذیری اور پی۔ ایچ (ہائیڈروجن آئن مرکوزیت) پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ پانی اور فضاء دونوں میں موجود ہوتا ہے اور ان دونوں کے درمیان تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ کم درجۂ حرارت پر کاربن ڈائی آکسائیڈ حل پذیری زیادہ اور بلند درجۂ حرارت پر کم ہو جاتی ہے۔
مثلاً جس طرح کاربونیٹ ملے پانی کے محلول کو گرم کرنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج ہوتی ہے۔ اسی طرح جب دریا کا پانی کاربونیٹ محلول کے ساتھ سمندر کے گرم پانی میں شامل ہوتا ہے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی حل پذیری کم ہو جاتی ہے اور اس گیس کا اخراج فضاء میں ہونے لگتا ہے۔ سمندر کے پانی کے گرم ہونے کی وجہ سورج کی شعاعیں اور گرم ہوا کی لہریں ہوتی ہیں۔ یہ عمل پانی کے ’’پی۔ ایچ‘‘ (PH) کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔
عام تازہ پانی میں ’’پی۔ ایچ‘‘ کی قیمت 7ہوتی ہے جو نیوٹرل کہلاتا ہے جبکہ 7سے کم ہو تو تیزابیت اور 7 سے زیادہ ہو تو قلویت ماحول کو ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ وہ پانی بھی جو ضیائی زون (Photozone) کے نیچے ہوتا ہے۔ حیاتی پلالنگٹن کے عمل تنفس کے ماتحت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو حل کرتا ہے اور ان نامیاتی اشیاء کے شکست و ریخت (تکسید) سے بھی شامل ہوتا ہے۔
پانی جو کالم کے ساتھ نیچے تہہ میں ڈوب جاتا ہے وہ ’’پی۔ ایچ‘‘ کو کم کر دیتا ہے۔ اتھلے علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر ’’پی۔ ایچ‘‘ رجسٹر کیا گیا ہے، جس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ضیائی تالیف دن کے وقت جبکہ عمل تنفس رات کو فروغ پذیر ہوتا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کو باقائدگی سے ذخیرہ کرتے ہیں تین ذرائع کو خصوصی اہمیت حاصل ہے یعنی سمندر، چٹانیں اور ذی روح اشیاء۔ ان سب میں سمندر سب سے زیادہ ذخیرہ اندوز مقام ہوتا ہے۔ سمندر پوری فضاء سے 50گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں سے زیادہ تر ’’کاربونیٹ‘‘ کمپاؤنڈ کی صورت میں ہوتے ہیں لیکن خاص مقدار پانی میں حل ہو جاتے ہیں۔
ہر سال تقریباً 200ملین ٹن اس گیس کا تبادلہ سمندر اور فضاء کے درمیان ہوتا ہے جو فضاء میں تبدیلی کو تحفظ دیتا ہے۔ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مرکوزیت فضاء میں زیادہ ہو جاتے تو سمندر بہت ساری گیس کو جذب کر لیتا ہے لیکن اگر اس گیس کی فضاء میں کمی ہو جاتی ہے تو پھر سمندر اس گیس کی بہت ساری مقدار کو خارج کردیتا ہے۔ جب یہ گیس سمندر اور فضاء دونوں سے آزاد ہوتی ہے تو کیمیائی مرکب کی شکل میں چٹانوں کے جسم میں قید ہو جاتی ہے جسے دو طرفہ عمل قرار دیا گیا ہے۔
آتش فشانی عمل اور ہوا میں بعض کاربن بردار کمپاؤنڈ کے توسط سے بھی آزاد ہوتی ہے۔ حیاتیاتی کارکردگی سے رہا اور قید ہونے والے عمل سے 120 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ہر سال فضاء اور سمندر کو متاثر کرتا ہے۔ ان حقائق کو مختلف ماہرین نے نظریات کے ذریعہ ہونے والی زمینی آب و ہوائی تبدیلی کی وضاحت کی ہے۔
تمام نظریات اس حقیقت کے تابع ہوتی ہیں کہ ہوا اس میں موجود کاربن ڈائی شمسی توانائی کو مقید کرتے ہیں اور بعض شعاعوں کو فرار نہیں ہونے دیتے۔ یہ عمل ’’گرین ہاؤس اثرات‘‘ کہلاتا ہے۔ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار ’’کاربن چکر‘‘ میں ردو بدل ہو جائے تو فضاء میں تبدیلی پیدا ہونے کی وجہ سے سخت زمینی آب و ہوائی تفرق کےپیدا ہونے کے قومی امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔
مثلاً جب نباتاب میں اس گیس کی غیر معمولی فراوانی ہو جاتی ہے تو عمل ’’ضیائی تالیف‘‘ کے ذریعہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کافی مقدار کرۂ ہوا سے فرار ہو جاتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ نباتات بڑی مقدار میں رکاز (باقیات) میں تبدیل ہو جائے جیسا کہ ’’گاربونی ٹیرس‘‘ دور میں ہوا تھا۔ چنانچہ کاربن کی بہت بڑی مقدار مقید ہو جائیگی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی صورت میں فضاء میں شامل نہیں ہو سکے گا۔
اس صورت حال میں’’کاربن ڈائی آکسائیڈ چکر‘‘ دوبارہ اس گیس کو ذخیرہ کرتا ہے لیکن اس سے قبل زمین کے درجۂ حرارت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق 50 فی صد اس گیس میں کمی کے ساتھ عالمی طور پر اوسط ً 6.9 ڈگری فارن ہائیٹ درجہ ٔحرارت میں کمی کے ساتھ گلیشیئر کی تشکیل ہوگی، جس کی وجہ سے سمندر کے پانی کے حجم میں بھی کمی آئے گی لیکن منجمد سمندر میں موجود اس گیس کی وافر مقدار دوبارہ فضاء میں شامل ہو جاتی ہے، جس کی وجہ درجۂ حرارت میں دوبارہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ گلیشیئر پگھلنے لگتا ہے ساتھ ہی آئس ایچ (Ice Age) تھم سکتا ہے۔
جب سمندر اپنی پچھلی سطح آب کو برقرار رکھتا ہے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ دوبارہ فضاء میں جذب ہوتا رہتا ہے اور اس طرح کائنات میں ’’کاربن چکر‘‘ جاری رہتا ہے۔ دوسری طرف ارضیاتی عمل فضاء میں موجود مطلوبہ گیس کی مرکوزیت میں تبدیلی لاتا ہے۔ مثلاً کوہ سازی سرگرمی کی وجہ سے آتشی چٹانوں کی بڑی تعداد سطح زمین پر بے نقاب ہو جاتی ہیں جو موسم زدگی کی زد میں آجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں فضاء سے بہت ساری کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہیں۔
انسانوں کی کارکردگی کی وجہ سے بھی اس گیس کے توازن میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً ہر سال کوئلہ اور پیٹرولیم کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے سے 6ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضاء میں شامل ہوتے ہیں۔ اگر یہی صورت حال جاری رہی تو آنے والے دنوں میں ٹریلین کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فضاء میں شمولیت متوقع ہے، جس سے زمین کی فضاء 3.6ڈگری ایف درجۂ حرارت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1970میں یہ اضافہ320 پارٹ پر ملین اور انیسویں صدی کے وسط میں 295 پارٹ پر میلن جبکہ 2000ء میں 375 پارٹ پر ملین معلوم کی گئی ہے۔ (پریس، سیور، ارتھ 320) یہ صورت حال بہت ہی فکر انگزیز نوعیت کی ہے، کیوںکہ آنے والے دور میں یہ اضافہ گلیشیئر پگھلنے، سطح سمندر میں اضافہ اور ساحلی علاقوں میں سیلاب کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے بلکہ ہو گئی ہے۔ چنانچہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مطلوبہ حد میں اضافے پر نظر رکھنا متعلقہ اداروں کی اہم ذمہ داری ہے۔