دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں حیران کن ترقی کر چکی ہے، جس کے چند مظاہر پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ مختصر جنگ مئی 2025ء میں نظر آئے۔ بھارت کو اپنی اقتصادی ترقی اور عسکری صلاحیت پر بڑا فخر تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کے جدید ترین اسلحے کے مقابلے میں ایشیا کا کوئی ملک اس کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ امریکا اور مغربی ممالک کا یہ خیال تھا کہ بھارت چین کی ترقی کو روکنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔ چین اور پاکستان دونوں مل کر بھی بھارت کی جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ جب بھارت کو فرانس کے جدید ترین لڑاکا طیارے رافیل فراہم ہو جائیں گے تو پاکستان کو سبق سکھایا جائے گا۔ لیکن وزیر اعظم کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان کے پاس ان کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے جدید طیارے اور میزائل موجود ہیں۔
پاکستان کے جدید الفتح میزائل سسٹم میں زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل کی 2 اقسام ہیں، فتح 1 اور فتح 2 مختلف آپریشنل رینجز اور میدان جنگ کی ضروریات کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ حال ہی میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف شروع کیےگئے’’آپریشن سندرو ‘‘کے جواب میں پاکستان کی جانب سے ’’آپریشن بنیان مرصوص ‘‘کیا گیا، جس میں پاکستان کے میزائل ’’فتح 1‘‘نے بھارت کے جنگی جنون کو خاک میں ملا دیا۔
اس میزائل سسٹم نے بھارتی دفاعی نظام کو زمین بوس کردیا۔ فتح 1 میزائل 120 کلو میٹر کی حد تک ضرب لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دشمن کے ٹھکانوں کوآسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ میزائل بنیادی طور پر ملٹی پل لانچ راکٹ سسٹم ہے، اس میں بیک وقت 8 میزائل شامل ہوتے ہیں۔
اس میزائل سے قبل پاک آرمی چینی ساختہ اے-100 سسٹم استعمال کر رہی تھی، جس کی رینج 100 کلو میٹر تھی ۔ فتح-1 کی ہدف کو نشانہ بنانے کی حد 120 کلو میٹر ہے۔ فتح 2 جدید ورژن ہے جو 400 کلومیٹر تک کی رینج تک ہدف کو نشانہ بناسکتا ہے، یہ پاکستان کی علاقائی دشمنیوں کو روکنے اور جواب دینے کی صلاحیت کو نمایاں طور پر بڑھاتا ہے، فتح 2 میزائل سیٹیلائٹ گائیڈڈ ٹارگٹنگ سسٹم ہے جو مقررہ اہداف کو نشانہ بنانے میں زیادہ درستی دکھاتا ہے۔یہ میزائل جدید نیویگیشن سسٹم سے آراستہ ہے اور 15 میٹر درستی سے دشمن کے بڑے دستوں، ٹھکانوں جیسے میزائل سائٹس، ایئر بیسز اور بحری تنصیبات کو باآسانی نشانہ بناسکتا ہے۔
جدید ترین چینی میزائل پی ایل 15
پی ایل 15 ایک جدید ترین چینی میزائل ہے جو پاکستان نے اپنے لڑاکا طیاروں جیسے JF-17 Block III پر نصب کیا ہے۔ یہ میزائل طویل فاصلے تک دشمن کے طیاروں کو مار گرا سکتا ہے، بعض تخمینوں کے مطابق یہ 200 کلومیٹر یا اس سے بھی زیادہ دور تک جا سکتا ہے، مگر اصل کمال اس کے اندر لگے ہوئے جدید ریڈار سسٹم اور ’’انرشیل نیویگیشن‘‘ سسٹم کا ہے، جو میزائل کو پرواز کے دوران بھی ہدف کی سمت میں درست رکھتے ہیں۔
جب بھارت کے Su-30، Jaguar اور Rafale طیارے پاکستانی حدود کے قریب آتے ہیں(چاہے وہ پٹھان کوٹ، برنالہ یا بھٹِنڈہ کے ایئر بیس پر موجود ہوں) پاکستانی فضائیہ کا گراؤنڈ ریڈار سسٹم اُن کی نقل و حرکت کو دور سے ہی محسوس کر لیتا ہے۔ ان ریڈارز میں زمین پر موجود ’’راڈار پکٹس‘‘، “AWACS” طیارے اور جدید گراؤنڈ سینسرز شامل ہیں۔
یہ تمام ریڈارز مسلسل دشمن کے طیاروں کی پوزیشنز، اونچائی اور رفتار کو مانیٹر کر رہے ہوتے ہیں۔ جب دشمن کے طیارے نشانے کے قابل حدود میں آجاتے ہیں تو پاکستانی JF-17 طیارہ، جو PL-15 سے لیس ہوتا ہے، ایک محفوظ فاصلے سے میزائل فائر کرتا ہے۔ PL-15 میزائل ابتدائی طور پر طیارے سے ’’ڈیٹا لنک‘‘ کے ذریعے مسلسل معلومات لیتا رہتا ہے، تاکہ وہ ہدف کو کھو نہ دے۔
جیسے ہی وہ ہدف کے قریب پہنچتا ہے، اس کا اپنا ’’ایکٹیوریڈار‘‘ آن ہو جاتا ہے، جو دشمن کے طیارے کو خودکار طریقے سے تلاش کر کے بالکل درست مقام پر جا کر نشانہ بناتا ہے۔ اس عمل کو ’’بی وی آر‘‘ یعنی Beyond Visual Range (بصارت سے باہر) ہدف کا نشانہ بنانا کہا جاتا ہے۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے پتا چلتا ہے کہ طیارےتباہ ہوگئے ہیں یا نہیں، جب PL-15 میزائل دشمن کے طیارے کو نشانہ بناتا ہے تو اس کا اثر زمین پر موجود ریڈار پکٹس، سگنل انٹیلجنس (SIGINT) اور پاکستان کے ایئر بورن وارننگ سسٹم پر فوراً ظاہر ہو جاتا ہے۔ مثلاً، جب کوئی طیارہ تباہ ہوتا ہے تو اس کا سگنل غائب ہو جاتا ہے، اس کی آواز، رفتار اور مقام اچانک ختم ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات دشمن خود اپنے ہی ہنگامی چینلز پر “Distress Signal” بھیجتا ہے، جو پاکستانی انٹیلجنس سسٹم پکڑ لیتا ہے۔ اس کے علاوہ، گراؤنڈ پر موجود دیگر شواہد جیسے دھواں، راڈار سے اچانک لاپتہ ہونا، یا انٹیلیجنس رپورٹس یہ ثابت کرتی ہیں کہ واقعی ہدف تباہ ہو چکا ہے۔ اس پورے عمل میں انسانی آنکھیں کچھ نہیں دیکھتیں، لیکن ریڈار، میزائل، اور ڈیجیٹل نظام ایک لمحے کے اندر دشمن کے طیاروں کوختم کر دیتے ہیں۔
ہیروپ ڈرونز
بھارت نے پاکستان کے خلاف کارروائی میں ’’ہیروپ ‘‘ نامی اسرائیلی ڈرونز سے بھی حملے کیے۔ ان ڈرونز میں جدید ترین ڈیٹا لنک نصب ہوتا ہے، جو انہیں دشمن کے ہیڈکوارٹر سے مسلسل مربوط رکھتا ہے۔ ان کا بنیادی مقصد دشمن کے حساس مقامات، فوجی تنصیبات، راڈارز اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز کی درست لوکیشن حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ ڈرون نہ صرف ہدف کی شناخت کرتے ہیں بلکہ اُس کی مکمل تفصیل چند ہی سیکنڈز میں ڈیٹا لنک کے ذریعے اپنے کنٹرول سینٹر یعنی بھارت پہنچا دیتے ہیں۔
یہی وہ حساس پہلو ہے، جس کی وجہ سے پاکستان ان ڈرونز کو فوری طور پر براہِ راست میزائل حملے سے نشانہ بنانے سے گریز کرتا رہا ۔ اگر یہ ڈرون حملے سے پہلے ہی مار گرائے جاتے تو عین ممکن تھا کہ نشانے پر موجود مقام کی مکمل جغرافیائی معلومات، سگنلز اور حساس ڈیفنس پوزیشنز دشمن کے ہاتھ لگ جاتیں۔
دشمن کا مقصد ہی یہی تھا کہ کسی طرح پاکستان کی گراؤنڈ بیس، ڈیفنس انٹیگریشن، ریڈار کنفیگریشن اور کوریج زونز کی مکمل معلومات حاصل کی جائیں، تاکہ آئندہ کسی بڑے حملے یا اسٹرائیک میں کامیابی یقینی بنائی جاسکے۔
اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے پاکستانی عسکری قیادت نے فیصلہ کیا کہ ان ڈرونز کو لانگ رینج میزائل یا ایئر ڈیفنس سسٹمز سے نہیں بلکہ سافٹ کِل ٹیکنالوجی کے ذریعے نشانہ بنایا جائے۔ یعنی انہیں جام کر کے فضا میں ناکارہ بنایا جائے یا پھر انہیں قریب لا کر گن فائر یا لیزر بیسڈ سسٹم سے شوٹ کر کے گرایا جائے۔ یہ حکمت عملی نہایت مؤثر اس لیے بھی ہے کہ اس سے ایک طرف دشمن کو ہماری حساس تنصیبات کی اصل پوزیشن کا علم نہیں ہو پاتا اور دوسری طرف ہم دفاع بھی مؤثر انداز میں جاری رکھ سکتے ہیں۔
پاکستان کا بھارت پر سائبر اٹیک
پاکستان کی طرف سے اپنے میزائل نظام، ڈرونز، ائیر فورس کے بہترین استعمال کے ساتھ ہمارے جیمنگ ٹولز نے بھارتی دفاعی نظام کو چاروں شانے چت کر دیا۔ چند ہی گھنٹوں میں اہم بھارتی فوجی اور دفاعی ڈھانچہ بے اثر ہوگیا، کمانڈ سینٹرز خاموش ہوگئےاور ریڈار سسٹم بیکار ہوگیا۔
بھارت کو سب سے غیر متوقع دھچکا پاکستان کی سائبر وار سے لگا۔ آئی ٹی کا چیمپئن سمجھے جانے والے بھارت کو پاکستان کے ایک ایسے سائبر حملے کا سامنا کرنا پڑا جسے ماہرین پاکستان کی طرف سے کیا جانے والا تاریخ کا سب سے بڑا سائبر اٹیک قرار دے رہے ہیں، حالاں کہ آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان کو بھارت کا مد مقابل نہیں سمجھا جاتا۔
پاکستان نے مواصلاتی لائنوں، ائیر ٹریفک سسٹم اور بھارت کے ڈیجیٹل ڈیفنس کنٹرول کو بھی غیر موثر کر دیا۔ بھارت کی بیشتر دفاعی اور سرکاری ویب سائٹس بھی ہیک کر لی گئیں۔ ان کے 70 فی صد علاقوں کو بجلی کی بندش کا سامنا رہا۔ سائبر اٹیک کے میدان میں یہ واقعتاً ناقابل یقین بات لگتی ہے۔
طیارہ جے 10 سی کی خصوصیات
فروری 2003 میں جے10ساخت کا پہلا طیارہ چین کی ایئر فورس کی 13ویں ٹیسٹ ریجمنٹ کے حوالے کیا گیا تھا۔اسی سال دسمبر میں اس لڑاکا طیارے کے ’آپریشنل‘ (قابل استعمال حالت میں) ہونے کا اعلان کیا گیا۔ اٹھارہ سال اس طیارے پر کام ہوتا رہا۔ جے-10 سی طیارے نے لڑائی کے لیے خدمات کی انجام دہی اپریل 2018 میں شروع کی تھیں۔ ابتدا میں اس طیارے کو پیپلز لبریشن آرمی و ایئر فورس کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن بعد میں چینی ہتھیار بنانے والی صنعت نے اسے برآمدی مقاصد کے لیے بھی بنانا شروع کر دیا۔
اس طیارے کو ’’وگرس ڈریگن‘‘ یعنی ’’پُرجوش اژدھا‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو جدید ٹیکنالوجی، برق رفتار کارکردگی اور مہلک ہتھیاروں سے لیس ایک کثیرالمقاصد جنگی طیارہ ہے۔ جے-10 سی چین کے چنگدو ایئرکرافٹ کارپوریشن کا تیار کردہ طیارہ ہے، جسے پاکستان ایئر فورس نے بھارتی رافیل اور سوخوئی-30 ایم کے آئی جیسے طیاروں کا توڑ قرار دیا ہے۔
یہ طیارہ درمیانے وزن ،سنگل انجن اور ملٹی رول کا حامل ہے ۔جے 10 سی فضا میں نیوکلیر وارہیڈ لیے جانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، لیکن روایتی ہتھیاروں کی مختلف اقسام لے کر جاسکتا ہے، اس کی جنگی رینج 550 کلومیٹر ہے۔ اس میں نصب سپر سونک AL -13FNیا WS-10B انجن سپر سونک رفتار فراہم کرتا ہے۔یہ کم از کم 1.8 mach کی رفتار سے اُڑ سکتا ہے۔
AESA ریڈار کئی اہداف کو ایک ساتھ ٹریک اور لاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈیجیٹل گلاس کاک پٹ اور ہیلمٹ ماؤنٹڈ ڈسپلے، پائلٹ کو اعلیٰ درجے کی سچویشنل اویئرنیس فراہم کرتا ہے۔ اس میں ECM سسٹم اور ریڈار جامنگ کی صلاحیت شامل ہے۔
جے-10 سی کو فضاء میں (-Beyond Visual Range (BVRلڑائی میں PL-15 میزائل کی بدولت برتری حاصل ہے۔ اس کی الیکٹرانک وارفیئر صلاحیتیں چوتھی جنریشن کے جدید طیاروں کے مقابلے کی ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق سازگار حالات میں یہ بھارتی فضائیہ کے Su-30MKI جیسے طیاروں کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے، پاکستان ایئر فورس نے جے-10 سی کو اپنے “ڈریگن اسکواڈرن” میں شامل کر کے ملکی فضائی دفاع کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔
جے 10 سی طیاروں میں مکمل انٹیگریٹڈ ویپن سسٹم، ایویانکس اور الیکٹرانک وار فیئر سوٹ موجود ہے، جس کی وجہ سے یہ طیارہ نظر نہ آنے والے دشمن کو بھی مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طیارے کو دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا گیا ہے۔
یہ فضا سے فضا اور فضا سے زمین پر اپنے اہداف کو فاصلے سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جے 10 سی کے ایئر فریم کی بات کی جائے تو اس میں ڈیلٹا کنارڈ کنفگریشن موجود ہے جو اس کی اجیلٹی کو بہتر بناتی ہے، جس کے باعث طیارہ اپنا اینگل آف اٹیک فوری تبدیل کر سکتا ہے۔ دوسرا اس کا اسٹرکچر کمپوزٹ میٹیریل سے بنا ہوا ہے۔ حالاں کہ یہ ایک سٹیلتھ ایئرکرافٹ نہیں ہے لیکن اس کی ریڈار پر نشاندہی مشکل ہو جاتی ہے۔
طیارہ رافیل کی خصوصیات
دوسری طرف انڈین فضائیہ کے پاس موجود رافیل طیارہ جوہری میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں دو طرح کے میزائل نصب ہو سکتے ہیں، ایک کی مار کرنے کا فاصلہ 150 کلومیٹر جب کہ دوسرے کی تقریباً 300 کلومیٹر ہے۔ جوہری اسلحے سے لیس ہونے کی صلاحیت رکھنے والا رافیل طیارہ فضا میں 150 کلومیٹر تک میزائل داغ سکتا ہے۔
جب کہ فضا سے زمین تک مار کرنے کی اس کی صلاحیت 300کلومیٹر تک ہے۔ رافیل ملٹی رول جنگی طیارہ ہے اور اس کی اُڑنے کی رفتارکم ازکم 1.8 mach ہے۔ یہ بھارتی فضائیہ کی جانب سے استعمال ہونے والے میراج 2000 کی جدید شکل ہے اور بھارتی ایئر فورس کے پاس اس وقت 51 میراج 2000 طیارے ہیں۔
رافیل کو اب تک افغانستان، لیبیا، مالی، عراق اور شام جیسے ممالک میں ہونے والی کارروائیوں میں استعمال کیا جا چکا ہے۔ کئی طرح کی خوبیوں سے لیس رافیل کو بین الاقوامی معاہدوں کے سبب جوہری اسلحے سے لیس نہیں کیا گیا۔ تاہم، کئی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت میراج 2000 کی طرح رافیل کو بھی اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال لے گا۔
خیال رہے کہ دونوں فائٹر جیٹس بنانے والی کمپنیاں انھیں 4.5 جنریشن فائٹر جیٹس قرار دیتی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں دنیا کے سب سے جدید ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کی کچھ صلاحیتیں موجود ہیں۔