ہمارے اسپتالوں سے مریض شفایاب ہوکر بھی گھروں کو واپس آتے ہیں اور ’’مر‘‘ کر بھی۔ اسپتال میں کسی کی موت کا واقع ہوجانا کوئی اچنبھے والی بات نہیں، یہ بھی ضروری نہیں کہ جو مریض وہاں جائے وہ زندہ سلامت گھر واپس بھی آجائے، یہ تو منحصر ہے بیماری کی نوعیت اور مریض کی کنڈیشن پر، بروقت معیاری علاج اور اچھے شفاخانوں میں ہوتی بہترین دیکھ بھال پر۔
اب بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں اچھے شفا خانے کون سے ہیں؟ یہ فیصلہ کرنا ایک کٹھن اور مشکل ترین کام معلوم ہوتا ہے، عام طور پراسپتال یا تو سرکاری ہوتے ہیں یا پھر پرائیویٹ۔ نجی اسپتال اچھی خاصی رقم لے رہے ہوتے ہیں اور اس کے بدلے وہ اپنی سروسز دے رہے ہوتے ہیں۔
اچھے تو وہ تب کہلائیں کہ جب بہترین خدمات پہنچا رہے ہوں اور اس کے عوض ناجائز منافع خوری سے اپنی تجوریاں نہ بھر رہے ہوں، پرائیویٹ اسپتال جائز اور ایماندارانہ معاوضہ لے رہے ہوں تو پھرکیونکر نہ سراہے جائیں، تعریفیں ہوں، عزت، وقار، نیک نامی اور شہرت میں کئی گُنا اضافہ ہو اور بالاخر اسپتالوں کو اُن کے مطلوبہ اہداف بھی حاصل ہو ہی جائیں۔ دوسری جانب سرکاری اسپتال ہوتے ہیں۔
اب سمجھ نہیں آرہا کہ سرکاری اسپتالوں کی یہاں کیا بات کی جائے، 78 برس ہونے کو آئے ہیں اور صرف باتیں ہی تو ہو رہی ہیں۔ خیر، بوجہ وقت کم مقابلہ سخت، ہم آگے بڑھتے ہیں اور اسپتالوں میں ہونے والی اموات کے بارے میں اپنی گفتگو جاری رکھتے ہیں۔ اسپتال میں کسی مریض کا مرجانا کوئی ایسی انہونی بات نہیں، نہ ہی یہ کوئی حیران کن اور پریشانی والی بات ہے۔
لیکن ہاں،کچھ اموات ایسی ضرور ہوتی ہیں جو شکوک و شبہات پیدا کردیتی ہیں، سوالات اُٹھا دیتی ہیں، اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہیں، روح کو گھائل اور عمر بھرکے لیے آنکھوں میں آنسو دے جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی غفلت، مطلوبہ طبی آلات اور ساز و سامان کی عدم دستیابی، ماہر، قابل اور تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی عدم موجودگی، غیر ذمے دارانہ اور انسانی ہمدردی سے عاری رویے، پیشہ ورانہ نظام کی ناقص صورتحال وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔شفا خانوں میں مریضوں کی اموات کے ذمے دار لواحقین کی جانب سے ڈاکٹروں کو یا دوسرے الفاظ میں اُن سے سرزد ہونے والی غفلت کو ٹھہرا دیا جانا کافی حیران کن اور افسوس ناک ہوتا ہے۔
ایک مسیحا کسی مریض کی جان کیسے اور کیونکر لے سکتا ہے؟ کوشش تو ڈاکٹروں کی یہی ہوتی ہے کہ مریض کی زندگی بچ جائے، لیکن پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جان لینے جیسا سنگین الزام مسیحائوں پر لگا دیا جاتا ہے؟ بہرحال، لگائے گئے ایسے الزامات میں کتنی صداقت ہوتی ہے اس کا فیصلہ تو غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور شفاف چھان بین کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔
لیکن یہ چھان، بین کرے کون؟ اسپتال انتظامیہ خود اپنے طور پر انتہائی رازداری اور خاموشی سے معاملے کو Investigate کرتی ہیں اور پھر… پھرکیا ہوتا ہے، کوئی نہیں جان پاتا،کچھ پتہ نہیں چل پاتا، اسپتالوں کا کام زور و شور سے جاری و ساری رہتا ہے اور پھرکچھ عرصے بعد اسی نوعیت کا دوسرا واقعہ روُنما ہوجاتا ہے، یعنی لاپرواہی اور غفلتوں کے نہ تھمنے والے سلسلے برسہا برس چلتے ہی رہتے ہیں۔
طبی معاملات اس قدر پیچیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں ( یا بنا دیے جاتے ہیں) کہ سیدھے، سادھے عام لوگوں کو بالکل بھی سمجھ نہیں آتے، عوام کو کیونکہ پیچیدہ طبی معاملات کی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی، اسی لیے ڈاکٹر انھیں جو بتا دیتا ہے، وہ اس پر یقین کرلیتے ہیں، اُن بیچاروں کو اتنا شعور ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس حوالے سے کچھ سوچ سمجھ سکیں اور معاملے کی گہرائی تک پہنچ سکیں، بس روتے، دھوتے لے جاتے ہیں، میت کو واپس اپنے گھر، اپنے گائوں، دیہات اورکفن دفن کے انتظامات میں لگ جاتے ہیں، ڈاکٹر اور اسپتال انتظامیہ صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
شفا خانوں میں یہ بھی اکثر دیکھنے میں آتا ہے کم عمر، نا تجربہ کار اور غیرتربیت یافتہ ڈاکٹروں کو ایسے وارڈز یا شعبوں میں تعینات کردیا جاتا ہے کہ جہاں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مریض موجود ہوتے ہیں، ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کا جواب تو اُس اسپتال کی انتظامیہ ہی بہتر طور پر دے سکتی ہے، پھر دیکھنے میں، ڈیوٹی پر موجود کچھ ایسے ڈاکٹرز بھی آتے ہیں جنھوں نے ہاتھوں میں موٹی سی ایک بھاری بھرکم کتاب پکڑی ہوتی ہے اور اپنے سامنے بیڈ پر لیٹے مریض کے بارے میں اُس کتاب سے رہنمائی حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔
اب یہ ایکٹ کتنا مناسب یا غیر مناسب ہے اس پر تو طبی امور پر دسترس رکھتے ماہرین سے ہی پوچھا جاسکتا ہے، بہرحال، اس منظرکو دیکھنے والی عام آنکھ اور ایک عام ذہن پر اس کے مثبت اثر ات قائم نہیں ہوتے۔ اصل سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے اسپتال پیشہ ورانہ قواعد وضوابط اور اصولوں کی پابندی کررہے ہیں؟ کس حد تک اخلاقی، قانونی، معاشرتی اور انسانی قدروں کی پاسداری عمل میں لائی جا رہی ہے؟ اور یہ سوال بھی کہ کیا ہمارے یہاں رائج صحت سے جڑے نظام میں ایسے طریقہ کار وضع ہیں کہ جن کی بابت متنازعہ معاملات کی خودکار طور پر باآسانی نشاندہی ہوسکے۔
بہت آسانی سے یہ پتہ چل سکے کہ شفاخانوں یا ڈاکٹروں پر لگے کسی بھی الزام کی اصل حقیقت کیا ہے، سچ اور جھوٹ کا پتہ چلایا جا سکے، مانیٹرنگ کے جدید نظام کے تحت اسپتالوں ( بالخصوص سرکاری شفا خانوں ) میں ہونے والی Activities پر نظر رکھی جا سکے۔ مانیٹرکیا جاسکے کہ کیا آپریشن تھیٹرز میں تمام تر Standardized Protocols کو پورا کیا جا رہا ہے؟ پرائیویٹ اسپتالوں میں مریضوں کےStay کو بلاضرورت ہی طول تو نہیں دیا جا رہا تاکہ آخر میں وصول کیے جانے والے بل کا حجم کئی گنا بڑھایا جا سکے۔
ڈاکٹروں کی جانب سے مریضوں کو وہی دوائیاں لکھ کردی جا رہی ہیں جو اثرکرتی ہیں یا پھر فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے دیے جانے والے پرکشش Incentives، میڈیکل اسٹورز پر رکھی مخصوص دوائیں ہی فروخت کروا رہے ہیں؟ میڈیکل پروفیشن سے وابستہ خامیوں،خرابیوں (خوبیوں پر بھی ) بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔
لیکن مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ، ساتھ اُن کے حل کی تلاش بھی بہت ضروری ہے، حل نہایت سیدھا اور آسان سا ہے اور وہ یہ کہ اسپتال سے وابستہ ہر وہ شخص جو غفلت، لاپرواہی، غیرذمے دارانہ رویوں اور سوچ کا شکار ہے اُسے چاہیے کہ اپنے اندر سوئے ہوئے انسانی جذبات اور احساسات کو جگانا شروع کرے۔
خود احتسابی کے عمل کو اپنانا شروع کرے، شروع کرے یہ سوچنا کہ وہ ایک ایسے پیشے سے وابستہ ہے جس سے لوگوں کی زندگی اور موت جڑی ہوئی ہے، اس احساس کو شدت سے محسوس کرے کہ وہ ایک ایسا کام کر رہا ہے جسے ’’ نوبل پروفیشن‘‘ کہا گیا ہے۔ غافل، مغرور اور انسانی جان کی قدروقیمت سے نا آشنا مسیحا،مسیحائی کے معنی اور مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
کوشش یہ سمجھنے کی بھی کی جائے کہ انسانی زندگی کوئی ٹی وی یا ٹیپ ریکارڈر نہیں کہ جسے کوئی مکینک لاپرواہی اور بے ایمانی سےpair Re کرتے ہوئے دوبارہ لائے جانے کی راہ ہموار کر لے اور پھرکسی دن کسٹمرکو یہ مشورہ بھی دے ڈالے کہ ’’ اب مشین ناکارہ ہوگئی ہے، ٹین ڈبے والے کو بیچ کر نئی لے لو‘‘ اور نہ ہی انسانی علاج معالجے کا عمل سیر و تفریح پر بنا کوئی کچا، پکا پروگرام ہے جسے جب چاہے Okay اور جب چاہے Cancel کردیا جائے۔ میڈیکل پروفیشن معتبر ہونے کے ساتھ، ساتھ ایک انتہائی ذمے دارانہ، حساس اور دوسرے پیشوں سے قطعا مختلف پروفیشن ہے، اسپتالوں کا کام زندگی کے دیے کو روشنی بخشنا ہوتا ہے۔
اگر موت کی علامت کے طور پرگردانے جائیں تو ایک قیامت ہی برپا ہوجائے۔ زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اسپتال انتظامیہ پر بھار ی ذمے داری عائد ہوتی ہے، ایسی پالیسیاں اور طریقہ کار اپنائے جائیں جو شفافیت کو یقینی بناسکیں اور عوام الناس کے اعتماد میں اضافے کا موجب بن سکیں ۔
اسپتال مناسب تشہیرکاری کے تحت لوگوں کو اپنے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی دیں، غلطیاں اگر سرزد ہو بھی جائیں تو اُن پر پردہ پوشی کے بجائے اُن سے سبق سیکھا جائے اور روک تھام کے سلسلے میں فوری، دیرپا اور منصفانہ اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ زندگی خوبصورت ہے، اہم اور انمول بھی، چاہے وہ کسی ڈاکٹر کی ہو یا پھر اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے ذریعے علاج پاتے مریضوں کی۔