41.1 C
Lahore
Saturday, May 17, 2025
ہومغزہ لہو لہوگفتگو بند نہ ہو، بات سے بات چلے

گفتگو بند نہ ہو، بات سے بات چلے


امریکا کے صدر ٹرمپ کی مداخلت پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دفعہ پھر جنگ بندی ہوگئی۔ اب دونوں ممالک کے سفارت کار کسی غیر جانبدار مقام پر مذاکرات کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے ایک دفعہ پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان وجہ تنازع کشمیر کے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے پر مختصر جنگ میں کس ملک نے کتنی برتری حاصل کی اس بارے میں دفاعی مبصرین مستقل اپنی آراء کا اظہار کررہے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف آباد لاکھوں خاندان ایک دفعہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے تھے اور مختصر لڑائی میں شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان دو بڑی اور پانچ چھوٹی جنگیں ہوچکی ہیں۔ سوائے 71ء کی جنگ کے باقی سب جنگیں کشمیر کے مسئلے پر ہوئیں۔ تاریخ کے صفحات سے مدد لی جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ابھی دونوں ممالک آزاد ہوئے ہی تھے کہ مہاراجہ کشمیر کے اقدامات کے باعث ریاست کشمیر میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوئی۔ مہاراجہ کشمیر نے بھارت سے مدد کی درخواست کی۔ بھارت نے شرط عائد کی کہ مہاراجہ کشمیر بھارت سے الحاق کا اعلان کریںگے یوں بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوئی۔

پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ قبائلی لشکر بھی بھارتی فوج سے لڑنے کے لیے مدد کو آگئے۔ جب جنگ شدت اختیار کرگئی تو بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گئے۔ سلامتی کونسل نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی اور مسئلہ کشمیر کے لیے تین قراردادیں قرارداد نمبر36، قرارداد نمبر 39 اور قرارداد نمبر 47 منظور کیں۔ قراردادوں کا مفہوم یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر سے اپنی فوجیں 30 دن کے اندر واپس بلالیں۔ بھارت کشمیر میں آزادانہ ریفرنڈم کا انعقاد کرے۔ اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کی مدد لی جائے مگر تاریخ شاید ہے کہ بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا ۔ بھارت پاکستان کے درمیان لیاقت نہرو معاہدہ سمیت کئی معاہدے ہوئے مگر کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔

جب جنرل ایوب خان کی حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات اور تیسری دنیا کے ممالک کے اتحاد کے لیے کوششیں تیز کیں۔ انھوں نے مختلف بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔ انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر سوئیکارنو پاکستان کے بڑے حامیوں میں شامل تھے۔

چین کے چیئرمین ماؤ اور وزیر اعظم چواین لائی کی بھی پاکستان کو حمایت حاصل تھی۔ 60کی دہائی میں چین اور بھارت کے درمیان تبت کے تنازع میں جنگ ہوچکی تھی۔ دونوں ممالک نے آپس میں ہی جنگ بندی اور مسئلہ کے حل کے لیے اتفاق کیا تھا، پھر کشمیر میں آپریشن جیرالٹر شروع ہوا۔ تاریخ میں پہلی دفعہ سرحد پار کر کے گوریلے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں لگ گئے۔ آپریشن جبرالٹر شروع ہوا۔

جب جنگ بڑھی تو کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی فوجوں میں گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی۔ بھارت نے 6 ستمبر 1965 کو لاہور ، سیالکوٹ اور دیگر مقامات پر حملے کردیے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان سترہ دن تک خوب لڑائی ہوئی۔ بہرحال سلامتی کونسل نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کرادی۔ سوویت یونین کے وزیر اعظم کوسجن نے بھارت کے وزیر اعظم شاستری اور پاکستان کے صدر ایوب خان کو تاشقند میں مدعو کیا جہاں کئی دن تک مذاکرات ہوئے اور دورے کے آخری دن معاہدہ تاشقند پر اتفاق ہوا۔ اسی رات وزیر اعظم شاستری دل کا دورہ پڑ جانے کی وجہ سے انتقال کرگئے۔

اس معاہدہ کے تحت آپریشن جبرالٹر تاریخ کے صفحات پر کھوگیا۔ دونوں ممالک نے اپنی اپنی فوجیں سیز فائز لائن پر لے جانے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کو قبول نہیں کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ معاہدے میں خفیہ شقیں شامل ہیں جن کے بارے میں وہ مناسب وقت پر انکشاف کریں گے ۔ جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس وقت تک بھی ان خفیہ شقوں کا انکشاف نہ ہوسکا۔

1971میں جب جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تو عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔ جنرل یحییٰ خان نے آپریشن شروع کیا۔ عوامی لیگ کے رہنما کرنل عثمانی نے مکتی باہنی کو منظم کیا۔ بھارتی فوج مکتی باہنی کی مدد کے لیے سابقہ مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئی اور 16دسمبر 1971کو کمانڈر جنرل نیازی نے بھارت کے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

 90 ہزار پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے، بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو صدر بن گئے۔ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے صدر ذوالفقار علی بھٹوکو شملہ میں مذاکرات کے لیے مدعو کیا، یوں معاہدہ شملہ ہوا۔ اس معاہدے کی بنیاد پر ایک اور معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں 90 ہزار فوجی قیدی رہا ہوئے۔ بھارت نے پاکستان کا 10 ہزار مربع میل علاقہ واپس کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات مکمل طور پر بحال ہوئے اور دونوں ممالک کے شہریوں کے ویزے کا طریقہ کار آسان ہوا۔

 جنرل ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کے ممکنہ امکانات کوختم کیا۔ جب پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو 1988میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئیں تو ان کی دعوت پر اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی اسلام آباد آئے اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کئی معاہدے ہوئے۔

وزیر اعظم نواز شریف کے دور سے دوستی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ وزیر اعظم واجپائی دوستی بس کے ذریعہ لاہور آئے اور مینار پاکستان پر حاضری دی اور پاکستان کی سلامتی سے یکجہتی کا اظہار کیا، یوں اب سمجھوتہ ایکسپریس کے ساتھ دہلی اور لاہور کے درمیان دوستی بس چلنے لگی۔ بھارت نے تجارت کے شعبہ میں پاکستان کو Most Favourite Nation کی فہرست میں شامل کرلیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفر کی رکاوٹیں بہت کم ہوئیں مگر پھر معرکہ کارگل ہو گیا۔بگڑتے حالات کو سنبھالنے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف واشنگٹن گئے تو صدر کلنٹن کی دعوت کے باوجود واجپائی واشنگٹن نہیں آئے۔

صدر کلنٹن نے ٹیلی فون کر کے واجپائی کو معاہدے کی شرائط سنائیں۔ جنرل پرویز مشرف خود اقتدار میں آگئے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ آگرہ سمٹ میں Cross Border Terrorismکے نکتہ پر اتفاق نہ ہونے پر آگرہ سمٹ ناکام ہوئی لیکن دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات جاری رہے۔ صدر پرویز مشرف نے کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے ممکنہ چھ نکات پر مشتمل حل پیش کیے۔ مگر پھر وکلاء تحریک چل گئی۔

مشرف دور میں دونوں ملک کے صحافیوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، ججوں، وکلاء، خواتین اور سیاسی کارکنوں کے درمیان رابطے بڑھ گئے۔ دونوں ممالک نے ویزے کی پابندیاں نرم کردی تھیں ۔ مظفر آباد اور سری نگر کے درمیان بس چلنے لگی اور کشمیر کے دونوں حصوں کے مابین تجارت شروع ہوگئی ۔ مگر پھر ممبئی میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد سب کچھ رک گیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بمبئی واقعہ کی تحقیقات کے لیے ڈی جی آئی ایس آئی کو بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ پھر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد ہوگئیں۔

 میاں نوازشریف جب 2013 میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی لاہور آئے، جامع مذاکرات ہوئے مگر پھر میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے معزول کردیا۔ 2019 میں دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے دروازے بند ہوئے۔ اب دوبارہ اس خطے میں امن کے لیے پیش قدمی ہوئی ہے ۔ ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کے یہ اشعار دونوں ممالک کے امن کے خواہاں عوام کی خواہش کی ترجمانی کرتے ہیں:

گفتگو بند نہ ہو

بات سے بات چلے

صبح تک شام ملاقات چلے

ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات