41.1 C
Lahore
Saturday, May 17, 2025

ذکرالٰہی!



صوفی صاحب اور میں‘ گاڑی میں محو گفتگو تھے۔ ان سے کافی دیر سے تعلق ہے۔ان کی شخصیت میں فکری اور روحانی تبدیلی بھی محسوس کی ہے۔ خیر اب تو وہ شخص‘ سراپا عجز ہے ۔ ڈاکٹر‘ یہ تو بتاؤ کہ لاہور میں محو خواب بزرگ ‘ حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی کتنی عمر ہو گی؟ ذہن میں آیا کہ یہ کیسا عجیب سوال ہے۔

بھئی عمر تو وہی ہو گی نا ‘ جو تاریخ پیدائش سے لے کر یوم وفات تک پائی جائے گی۔بہت سوچ کر جواب دیا کہ اس سوال کا جواب تو پڑھ کر ہی دیا جا سکتا ہے۔ صوفی صاحب نے سوال کی وسعت مزید بڑھا دی۔ دہلی میں آسودہ خاک‘ نظام الدین اولیاء‘ اجمیر میں تشریف فرما ‘ جناب خواجہ اجمیری بھلا‘ کتنے برس کے ہوں گے۔ اور یہ پاکپتن والے بزرگ ‘ہاں ان کی عمر کتنی ہو گی۔ طالب علم چونک گیا ۔ قطعاً معلوم نہیں! جو بھی ان کی زندگی کے متعلق واقف حال ہے وہ آرام سے بتا دے گا۔مسکرا کر کہنے لگے‘ کہ ان تمام لوگوں کی عمر تیس برس کی ہے۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔

صوفی صاحب ! یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کو گزرے تو دس صدیوں کے قریب ہو چکے ہیں۔ نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ ‘ دہلی سلطنت کے زمانے کے بزرگ کامل تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ تمام افراد ‘ صرف تیس برس کے ہو جائیں؟ یہ ویسے بھی دلیل کے خلاف بات ہے۔ صوفی صاحب‘ سنجیدگی سے کہنے لگے۔ کہ جب خدا کے برگزیدہ افراد‘ دنیا سے پردہ کر لیتے ہیں۔ تو یہ تمام کے تمام‘ عالم برزخ میں منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ وہاں ان کی عمر کو تیس برس کر دیا جاتا ہے۔ باذن ربی ‘ یہ تمام عین جوانی کے عالم میں روحانی زندگی بسر کرتے ہیں۔

مجھے قطعاً یقین نہیںآیا۔ ذہن میں صرف یہ خیال بلکہ سوال تھا کہ یہ صوفی صاحب‘ کیسی عجیب سی گفتگو فرما رہے ہیں۔ بھلا‘ ان بزرگوں کی عمر اتنی کم کیسے ہو سکتی ہے؟ صوفی صاحب نے بات کو آگے بڑھایا۔عالم ارواح میں یہ لوگ جوان بھی ہیں اور قوی بھی۔ یہ اپنے مزار پر آئے ہوئے لوگوں پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کی باتیں سنتے ہیں اور ان سے باطنی طور پر محو گفتگو بھی ہوتے ہیں۔ میں خاموش ہو گیا۔ خیر تیس برس کی عمر کا عجیب سا عدد ‘ ذہن میں اٹک گیا۔ میڈیکل ڈاکٹر ہوں ۔

میڈیکل کی کتابیں کھولیں تو حیران رہ گیا تیس برس دراصل‘ بھرپور جوانی کا وہ حصہ ہے جہاں انسان کی جسمانی قوت‘ بھرپور ہوتی ہے۔ آپ اسے عالم شباب بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس عمر میں‘ جسمانی ہارمونز کا خون میں تناسب ‘ حد درجہ صحت مندانہ ہوتا ہے۔بحیثیت ڈاکٹر ‘ عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ تیس برس کی عمر کا مطلب حد درجہ سائنسی اور مدلل ہے۔ اس لیے کہ جید بزرگ‘ اپنی فکری وسعت تو دنیا میں ہی پوری کر چکے ہوتے ہیں۔ عالم برزخ میں‘ اللہ رب العزت انھیں جسمانی اور روحانی اعتبار سے بہترین حال میں رکھتے ہیں۔

بہر حال سفر جاری تھا اور یہ کوئی طویل دورانیہ نہیں تھا۔ یہی کوئی‘ چالیس پچاس منٹ کا سفر۔ اب میں مکمل خاموش تھا۔ ڈاکٹر ‘ عبادت کے بھی کئی درجے ہوتے ہیں اور یہ مختلف لوگوں کی استطاعت کے حساب سے ہوتی ہے۔ عامی کی لگن اور ہے اور خواص کسی اور منزل کے مسافر ہوتے ہیں۔ نماز تو خیر فرض ہے مگر اس کے علاوہ ذکر الٰہی بھی ہے جو اپنی جگہ پورا جہاں ہے۔ ذکر کرنے والے لوگ بھی پہچانے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ علیحدہ سے ہوتے ہیں۔ صوفی صاحب ‘ یہ ذکر کیا ہے؟ اس کے متعلق سن تو رکھا ہے مگر پلے کچھ نہیں پڑا۔ ڈاکٹر‘ یہ دراصل ‘ ذکر ایک مکمل کیفیت اور عبادت کا نام ہے اور جس طرح یہ کیا جاتا ہے‘ وہ بذات خود ایک سفر ہے۔ ویسے ذکر کے متعلق‘ بھائی جمیل سے بھی کافی کچھ سن رکھا تھا۔

وہ فوج سے ریٹائر کرنل تھے اور حد درجہ نیک اور سنجیدہ انسان تھے۔ کافی باطنی مراحل طے کر چکے تھے اور اپنے وجود میں پختہ ہو چکے تھے۔ سو فیصد ‘روحانی اعتبار سے عرض کر رہا ہوں۔ صوفی صاحب پوچھنے لگے کہ ایک بات کا جواب دو ۔ آپ کو ذکر کے متعلق کیسے اور کیونکر معلوم ہے؟ جواب دیا کہ بھائی جمیل اس کی بابت کافی کچھ بتاتے رہتے تھے۔ صوفی‘ خاموش سے ہو گئے۔ آپ ‘ کرنل صاحب کو کیسے جانتے ہو۔ بھئی وہ تو میرے والدکے اچھے دوست تھے اور ہمارے گھر کے فرد کی طرح تھے۔ کووڈ میں رب کے حضور پیش ہو گئے۔

ان سے ان گنت بار ملاقات ہوئی ہے۔ صوفی صاحب‘ نے مجھے غور سے دیکھا۔ اچھا‘ تو پھر کیا سیکھا؟ جواب دیا۔ کہ طالب علم تو کچھ بھی نہیں سیکھ سکھا۔ کیونکہ ان کی کئی باتیں سمجھ میں نہیں سمائی۔ صوفی صاحب نے کہا کہ مجھے ذکر کے راستے پر کرنل جمیل ہی لے کر چلے تھے۔ دہائیاں پہلے‘ وہ ایک مقامی مسجد میں لے کر گئے اور وہاں انھوں نے ’’اللہ‘‘ کہنے کا ڈھنگ سمجھایا۔ سانس کیسے لینا ہے‘ دل پر اللہ کا نام کیسے کندا کرنا ہے اور پھر سانس باہر کیسے نکالنا ہے۔ یہ حد درجہ مشکل کام ہے مگر مرشد اسے آسان بنا دیتے ہیں۔ یہ مرشد کون ہے؟ اور اس تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔

صوفی نے جواب دیا کہ کرنل صاحب اور میں‘ دونوں‘ سرگودھا کے علاقے میں‘ایک بزرگ کے بیعت ہیں۔ جن کا تعلق اعوان قبیلے سے ہے۔ اب تو وہ فوت ہو چکے ہیں اور ان کا بیٹا ‘ اسی راستہ کا راہ رو بن چکا ہے۔ جناب ‘ان اعوان بزرگ کو میں ملا نہیں۔ مگر ان کی نیک نامی کا لوہا تو سب مانتے ہیں۔ مذہب پر ان کے لیکچر یوٹیوب پرموجود ہیں۔ بھائی جمیل‘ بذات خود دراز قد اور حد درجہ وجیہہ انسان تھے۔ چہرے پر معصومیت اور سکون کی کیفیت موجود تھی۔ باریش تھے، بڑی عمر کے تھے مگر ان کے سر اور داڑھی کے بال بہت ہی کم سفید تھے۔ نوجوان دکھائی دیتے تھے۔ عبادات نے بھائی جمیل کو اتنا پرشکوہ کر دیا تھا کہ چہرے پر نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔ میرے گھر کے نزدیک ہی ان کا دولت خانہ تھا اور صوفی صاحب بھی بالکل نزدیک ہی رہتے ہیں۔

صوفی صاحب بے خطر بول رہے تھے اور میں خاموشی سے سن رہا تھا۔ ڈاکٹر‘دراصل روحانی طور پر انسان کی منازل ہیں جو طے کرنی ہوتی ہیں۔بنیادی طور پر یہ تین منزلیں ہیں۔ پہلی منزل کے اندر بھی کئی فصیلیں ہیں۔ سلوک کے ان درجوں کو یکدم نہیں پایا جا سکتا۔ یہ کڑی اور سخت کوش محنت کے سبب عبور ہوتی ہیں۔ پہلی منزل میں تو ہاتھ میں مرشد کی تعلیمات ہوتی ہیں مگر اسے عبور کر کے‘ فنا فی الرسول کا زینہ آتا ہے۔ جہاں پہنچا بہت زیادہ مشکل ہے۔ وہاں ان کے ساتھ‘ حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر‘ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تشریف فرما ہوتے ہیں۔

سامنے کچھ کرسیاں پڑی ہوتی ہیں۔ شاید چار یا پانچ‘ اور ان پر وہ خوش قسمت پہنچتے ہیں جو فنا فی الرسول کے عظیم مرتبے پر براجمان ہوتے ہیں۔ آقاﷺ بذات خود‘ اس مجلس کی سربراہی فرماتے ہیں اور ان کے سامنے بیٹھنا‘ بذات خود ایک بہت عظیم انعام ہے۔ اور اس کے بعد ‘ پھر فنا فی اللہ کا درجہ ہے۔

صوفی صاحب کہنے لگے کہ مجھے اس درجہ پر فائز صرف محمد عربی ﷺ نظر آئے ہیں یا خدا کے دیگر رسول بھی ہو سکتے ہیں مگر یہ درجہ حتمی ہے۔ مگر صوفی صاحب‘ آپ کی باتوں کی دلیل کیا ہے؟ میرے سوال پر مسکرانا شروع ہو گئے۔ دراصل‘ ذکر‘ انسان کو خاموش طبع بنا دیتا ہے۔ انسان محفل میں موجود تو ہوتا ہے۔ مگر حقیقت میں‘ وہ موجود نہیں ہوتا۔ اس وقت بھی وہ اللہ کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے۔ لبوں پر کچھ نہیں محسوس ہوتا۔ مگر ’’قلب‘‘ پر اللہ کے نام کی چوٹ پڑ رہی ہوتی ہے۔ ذکر کرنے والے بندے ایک خاص کیفیت میں ہوتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ‘ اس راستے کے مسافر‘بخوبی پہچان لیتے ہیں۔ انھیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ شخص جو آرام سے مجلس میں براجمان ہے۔ دراصل وہ اس وقت بھی روحانی طور پر خدا سے تعلق بنانے میں مصروف ہے۔

دل میں اللہ کا نام روشن کرتا جا رہا ہے۔ تنہائی میں ذکر الٰہی‘ مراقبہ کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے۔ جہاں سکون ہی سکون ہے۔ انسان دنیا کی ہر چیز سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔ مگر آپ ذرا سی بھی ہیرا پھیری کریں تو آپ کی ساری ریاضت ختم ہو جاتی ہے ۔ اور آپ کا سب کچھ رائیگاں ہو جاتا ہے۔ آپ صفر سے بھی نیچے آ جاتے ہیں اور شاید دوبارہ قافلے میں شامل ہونے کی اجازت بھی نہ ملے اس لیے ذکر اور مراقبہ کرنے والے انسان‘ گناہ سے شدید دور رہتے ہیں۔

اپنی زندگی کو دین کی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی مکمل جدوجہد کرتے ہیں۔ صرف اور صرف رزق حلال پر قناعت کرتے ہیں۔ اگر حرام کا ایک لقمہ بھی استعمال کر لیا تو ساری عبادت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ اپنی پوری زندگی کو مکمل سچ اوراسلامی تعلیمات کے زیر کرنا‘ بہت مشکل کام ہے۔ صوفی صاحب موج میں تھے۔ دراصل ذکر‘ انسان اور رب کا وہ باہمی تعلق استوار کرتا ہے کہ انسان ‘ مکمل بے خودی کے عالم میں چلا جاتا ہے۔ صوفی صاحب سے کافی باتیں ہوئیں جن کا ذکر پھر کبھی کروں گا۔ مگر میں تو سائنس کی دنیا کا انسان ہوں‘ میرا بھلا ان ساری مشکل باتوں سے کیا تعلق؟

مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات