33 C
Lahore
Saturday, May 17, 2025
ہومغزہ لہو لہو’’بلیو اکانومی‘‘ پالیسی کی تیاری

’’بلیو اکانومی‘‘ پالیسی کی تیاری


ہزاروں سال سے سمندر کے راستے تجارت ہورہی ہے اور جب تجارتی جہاز ایک ساحلی بندرگاہ سے دوسرے کسی براعظم کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے ہیں تو اپنے ساتھ مال تجارت کے علاوہ تہذیبوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کی زبان سیکھنے کے مواقعے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ دوستی بھائی چارے کے پیغام کے ساتھ آپس میں گھلنے ملنے کے مواقعے حاصل ہوتے ہیں۔ ہنر و فن، دستکاری اور اس طرح کے بہت سے معاملات میں ایک دوسرے سے آگاہی ہوتی ہے، ایک ملک کی دوسرے ملک سے شناسائی ہوتی ہے۔

انھی بحری راستوں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک سفارتکاری ہوتی رہی ہے۔ شعبے تعینات ہوتے رہے ہیں، دنیا بھر میں اب اس بحری عالمی تجارت، اس بحری دولت، بحری وسائل سمندر میں چھپی معدنیات زیر سمندر تیل و گیس کے ذخیروں کی تلاش اور اس بحری خزانے سے استفادے کے نام کو اب ’’بلیو اکانومی‘‘ کہا جانے لگا ہے۔

بہت سے ممالک ایسے ہیں جو آج سے کئی عشرے قبل سے اس دولت کو سمیٹ کر اس سے متعلق بلیو اکانومی پالیسی بنا کر اپنے خزانے بھرتے چلے جا رہے ہیں۔ اب بھی دنیا بھر کے ساحل اپنے اپنے ملکوں کو پکار رہے ہیں کہ آئی ایم ایف یا کسی اور کے پاس نہ جاؤ، اپنے وسائل اپنے ذرایع اپنے سمندر اپنے ساحل کو ذرا تراش لو۔ تو دیکھو ہم زر و جواہر کے ڈھیر لگا دیں گے، بہت سے ملکوں نے بہت پہلے اس آواز پر کان دھر لیا تھا۔ پاکستان اس جانب متوجہ ہوا۔ پہلے تھوڑی بہت توجہ تھی اور سمندری تجارت کا اہم ترین جز مچھلیاں ایکسپورٹ کرکے لگ بھگ کبھی 50 کروڑ ڈالر کبھی 45 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کر لیتا تھا۔

لیکن کچھ عرصے سے پاک نیوی جس کی حکمرانی کافی عرصے سے بحیرہ عرب پر قائم تھی، اس کے اصرار پر حکومت پاکستان نے اس جانب اب بھرپور توجہ دی۔ پہلے بھی کچھ توجہ تھی لیکن اس مرتبہ وزارت بحری امور نے سمندری شعبے کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے جامع ’’بلیو اکانومی پالیسی‘‘ کی تیاری کا کام شروع کر دیا ہے اور یہ منصوبہ بندی 100 ارب ڈالر سے زائد آمدن لانے کا ذریعہ بنے گی۔ اب اسے مستقبل کا خواب نہیں سمجھا جائے گا بلکہ آج کی ترجیح ہوگی۔

پاکستان میں بلیو اکانومی سے جڑا ماہی گیری کا شعبہ ہے۔ یہ شعبہ جدید ٹیکنالوجی اور مہارت سے محروم ہے اس لیے اس کی کارکردگی بھی کچھ زیادہ نہ رہی اب بلیو اکانومی منصوبے کے تحت اس شعبے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی تاکہ مچھلی کی برآمدات کو کم ازکم 10 سے 15 ارب ڈالر تک لے جایا جا سکے۔ پہلے ماہی گیری شعبے کی برآمدات کا عالمی مارکیٹ میں بالکل قابل ذکر کوئی حصہ نہیں تھا لیکن اب امید ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی، جدید کولڈ چین وغیرہ سے برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔

کراچی کے ساحلی علاقوں میں زیر سمندر گیس اور تیل کے ابتدائی ذخائر کا تخمینہ 100 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس شعبے کو منصوبہ بندی میں شامل کیا جائے۔ میرین یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ماہی گیروں کی جدید ترین خطوط پر تربیت مہیا کی جائے گی۔ کراچی کے ساحلوں کے نزدیک آلودگی پھیلتی چلی جا رہی ہے امید ہے اس جانب بھی توجہ دی جائے گی۔ اس طرح وقت آ گیا ہے کہ ’’بلیو اکانومی پالیسی‘‘ تیار کرکے سمندر کی وسعتوں سے سونا کشید کیا جائے۔ بلوچستان میں گڈانی کا خوبصورت ساحل اب صرف جہاز توڑنے کا مقام بن کر رہ گیا ہے۔

اس میں بھی اب کمی واقع ہو گئی ہے اگر اس ساحل کی خوبصورتی کے لیے سرمایہ کاری کی جائے وہاں پر سرمایہ کاری کرنے سے مقامی آبادی کو روزگار بھی میسر آئے گا اور دنیا بھر سے سیاح بھی بڑی تعداد میں آ سکتے ہیں لیکن یہاں پر پہلا مسئلہ امن و امان ہے جسے حکومت امن قائم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرے جوکہ بلیو اکانومی پالیسی کا حصہ بھی ہو۔ اسی طرح کنڈ ملیر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے بھی ایک اچھا خاصا تفریحی سیاحتی ساحل بنانے میں سوائے سرمایہ کاری کے اور کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔

’’ہنگول نیشنل پارک‘‘ میدانی ساحلی اور پہاڑی سلسلے پر مشتمل خوبصورت مناظر کی دولت سے مالا مال ساحلی پٹی ہے۔ پھر کراچی سے ساڑھے چار سو میل دور ’’پسنی‘‘ کی بات ہی کچھ اور ہے جو خوبصورت ساحل کے ساتھ نایاب آبی حیات کے لیے بھی مشہور ہے اور پھر جیوانی جسے پہلے کی نسبت بہت زیادہ ترقی دینا ہوگی، اس کے ساتھ بلوچستان کے امن و امان کے مسائل کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا۔ اگر ان تمام تر ساحلی مقامات کو نیلی معیشت سے بدل دیتے ہیں تو یہ مقامی بے روز گار افراد کے لیے روزگار کا جاذب نظر ذریعہ بن جائے گا جس سے امن و امان کے مسائل کو بھی تیزی سے حل کیا جاسکتا ہے۔

جس طرح کہا جا رہا ہے کہ بلیو اکانومی پالیسی کی تیاری کا آغاز کر دیا گیا ہے اگر درست منصوبہ بندی کرلی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں ساحلی سیاحت، محفوظ جہاز رانی، تجارتی جہازوں کو ہر طرح کی سہولیات کی فراہمی، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے خوراک اور وسائل کی تلاش کا کام تیز تر کیا جاسکتا ہے۔

معدنیات تیل و گیس کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے اور یوں پائیدار بلیو اکانومی پالیسی کے ذریعے مقامی افراد کے لیے روزگار کے ہزاروں نہیں لاکھوں مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں جس سے 100 ارب ڈالر کی آمدن کم ہے اس سے کہیں زیادہ حاصل ہو سکتا ہے اور لاکھوں افراد کو روزگار کی فراہمی کا خواب کی تعبیر مل کر رہے گی لیکن اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے بس ہمت مرداں مدد خدا۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات