41.6 C
Lahore
Tuesday, May 13, 2025
ہومغزہ لہو لہوسیز فائر کی کہانی - ایکسپریس اردو

سیز فائر کی کہانی – ایکسپریس اردو


پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر ہو گیا ہے۔ سیز فائرکا کریڈٹ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ لے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی ٹیم جس میں سیکریٹری خارجہ اور نائب صدر شامل ہیں وہ بھی اس سیز فائزکا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ لیکن سب جاننا چاہتے ہیں کہ اس سیز فائر کی کہانی کیا ہے۔

عجیب صورتحال ہے کہ بھارت کہتا ہے کہ اس نے تو امریکیوں کو سیز فائر کے لیے کہا ہی نہیں۔ اس نے تو امریکیوں سے بات ہی نہیں کی ہے۔ جب کہ پاکستان کہتا ہے کہ اس نے سیز فائر کی کوئی درخواست بھارت کو نہیں کی ہے۔ اس لیے سیز فائر کی کہانی ایسی ہے کہ یہ سیز فائر ہے بھی اور اس کو دونوں فریقین مان بھی رہے ہیں۔ لیکن کیسے ہوا، پر اختلاف ہے۔

سب سے پہلے یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان کو امریکا کی ثالثی پر کوئی اعتراض نہیں۔ بلکہ پاکستان کو تو دنیا کے کسی ملک کی ثالثی پر بھی اعتراض نہیں ہے۔ ہم نے تقریباً دنیا کے تمام بڑے ممالک جو ثالثی کا کردارادا کر سکتے تھے انھیں جنگ روکنے اور ثالثی کے لیے کہا۔ پاکستان پہلگام کے واقعہ کی غیر جانبدارانہ اور کسی عالمی ایجنسی سے تحقیقات کے لیے بھی تیار تھا۔

ہم جس کو بھی جنگ روکنے کے لیے کہہ رہے تھے ساتھ غیر جانبدارانہ تحقیقات کی بات بھی کر رہے تھے۔ ہمارا سادہ بیانیہ تھا کہ پہلے تحقیقات کر لیں، اگر تحقیقات میں کچھ ثابت ہو تو جنگ کر لیں۔ تحقیقات سے پہلے جنگ کیسے ممکن ہے۔ لیکن بھارت کسی بھی ملک کی ثالثی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ جنگ کے لیے تیار تھا۔

اسی لیے آپ دیکھیں کہ جنگ سے پہلے امریکا نے اس معاملے سے خود کو الگ کر لیا تھا۔ وہی امریکا جو اب ثالثی کا کریڈٹ لے رہا ہے۔ جنگ سے پہلے امریکی صدر اور نائب صدر دونوں کہہ رہے تھے کہ اگر دونوں ملک لڑتے ہیں تو ہم کیا کریں ۔

یہ دونوں ملک صدیوں سے لڑ رہے ہیں۔ نائب صدر نے تو کہا کہ یہ امریکا کا کام نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ روکے۔ اگر دونوں لڑنا چاہتے ہیں تو لڑیں۔ یہ بھارتی لائن تھی۔ بھارت نے امریکا کو کہا کہ وہ لڑنا چاہتا ہے۔ اس لیے اسے کسی بھی قسم کی ثالثی قبول نہیں۔ جب بھارت کو ثالثی قبول ہی نہیں تھی تو اکیلے پاکستان کے ثالثی ماننے سے تو ثالثی نہیں ہونی تھی۔ اس لیے امریکا نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی خود کو الگ کر لیا تھا۔

سعودی عرب اور ایران نے کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں رہی۔ سعودی وزیر پاکستان سے گئے اور لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ ایرانی وزیر خارجہ کے دورے بھی کوئی کامیاب نہیں رہے تھے۔ اس لیے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی امریکا ہے جو پہلے ثالثی کروانے کو تیار نہیں تھا۔ اب کریڈٹ لے رہا ہے۔

لہٰذا صاف بات ہے کہ بھارت نے ہی امریکا کو اشارہ دیا کہ وہ ثالثی کے لیے تیار ہے اور بھارت کے ثالثی پر تیار ہونے کے بعد ہی امریکا نے پاکستان سے بات کی تھی۔ اس لیے یہ بات کوئی راز نہیں کہ پہلے بھارت نے ہی امریکا کو ثالثی سے روکا ہوا تھا اور پھر بھارت نے ہی امریکا سے ثالثی کی درخواست کی۔

حالانکہ بھارت نے آئی ایم ایف میں پاکستان کے قرض کی قسط رکوانے کی بہت کوشش کی۔ بھارتی نمایندہ نے آئی ایم ایف کے بورڈ اجلاس سے بائیکاٹ بھی کیا۔لیکن امریکا سمیت تمام ممالک نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ اس لیے سمجھیں بھارت امریکا سے خوش نہیں ہوگا کہ اس نے جنگ کے دوران آئی ایم ایف میں پاکستان کے قرض کی منظوری کے حق میں ووٹ دیا۔ ایسے میں بھارت کا پھر امریکا کو ثالثی اور سیز فائر کے لیے کہنا ۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت جنگ بند کرنا چاہتا تھا۔ وہ اب مزید جنگ کا متحمل نہیں تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔

اب تک جو خبریں سامنے آئی ہیں۔ پہلے امریکا کو جنگ سے الگ کرنے کے لیے بھی بھارت نے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کو استعمال کیا تھا۔کیونکہ وہ پہلگام کے واقعہ کے وقت بھارت میں تھے۔ اور بعد میں سیز فائر کے لیے بھی بھارت نے امریکی نائب صدر سے ہی رابطہ کیا تھا۔ بہرحال اب بھارت امریکا کے کسی بھی قسم کے کردار کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔ بھارت کہہ رہا ہے کہ سیز فائر میں کوئی امریکی کردار نہیں یہ تو پاکستان نے سیز فائر کی درخواست کی جس کو بھارت نے قبول کر لیا ہے۔ بات اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوئی ہوتی تو سب سے پہلے سیز فائر کی خبر امریکا سے کیسے آگئی۔ لیکن بھارت اور بالخصوص نریندر مودی اس وقت بھارت میں شدید مشکل میں ہیں۔ اس لیے سیز فائر پر بار بار موقف بدل رہے ہیں۔

بھارت کی فوجی کمان نے جو پریس بریفنگ کی ہے۔ اس میں یہی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ڈی جی ایم او کی درخواست پر سیز فائر کیا گیا ہے۔ لیکن یہاں بھارت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ سات مئی کو پہلے بھارت نے اپنے ڈی جی ایم او کے ذریعہ پاکستان کو سیز فائر کا پیغام بھجوایا تھا۔ لیکن پاکستان نے اس پیغام کے جواب میں کہا تھا کہ ہم واپس اسٹرائیک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب بھارت نے مریدکے اور بہاولپور پر حملہ کیا تھا۔ حالانکہ پاکستان نے بھارت کے جنگی جہاز گرا لیے تھے۔ لیکن پاکستان نے تب بھارت کی سیز فائر کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ یہ بات بھارتی فوجی قیادت نے اپنی پریس بریفنگ میں کہی ہے کہ پہلے انھوں نے سیز فائر کی درخواست بھیجی تھی لیکن پاکستان نے قبول نہیں کی۔ بھارت کا موقف ہے کہ سیز فائر کی جو درخواست پاکستان نے سات آٹھ مئی کو مسترد کر دی تھی۔

وہ پاکستان نے 11مئی کی شام قبول کر لی۔ پاکستان کا موقف ہے کہ ہمارے پاس ان کی سیز فائر کی درخواست کافی دن سے موجود تھی۔ ہم مان نہیں رہے تھے۔ پھر جب ہم نے واپس اسٹرائیک مکمل کر لی تو ہم مان گئے۔ لیکن پہلے بھارت نے درخواست کی تھی۔ بھارت اپنی پہلے والی درخواست مانتا ہے۔ لیکن کہتا ہے کہ 11مئی کو کوئی درخواست نہیں کی۔

یقیناً سادہ بات ہے جب بھارت نے امریکا کو سیز فائر کے لیے کہا تو سچا بننے کے لیے یہ بھی کہا ہوگا کہ ہم نے تو پہلے دن ہی سیز فائر کی درخواست بھیجی تھی پاکستان نہیں ما ن رہا۔ آپ پاکستان کو سیز فائر پر منائیں۔ جب امریکا اور پاکستان کے درمیان سیز فائر پر بات طے ہوگئی ہوگی۔ تو امریکا نے پاکستان سے کہا ہوگا کہ آپ کے پاس بھارت کی جانب سے سیز فائر کی درخواست زیر التوا ہے اسے قبول کر لیں۔ پاکستان نے قبول کر کے بھارت کو اطلاع کر دی۔ لیکن اس میں بھارت کا یہی خیال ہوگا کہ امریکا سیز فائر میں اپنا کردار خفیہ ہی رکھے گا۔ لیکن شاید بھارت کو اندازہ نہیں تھا کہ امریکا پاکستان اور بھارت کے سیز فائر کے اعلان سے پہلے خود اعلان کر دے گا۔ اور دنیا کوپتہ چل جائے گا کہ امریکا نے سیز فائر کروایا ہے۔

امریکا کی جانب سے پہلے سیز فائر کے اعلان اور بعد میں ڈولنڈ ٹرمپ کے دوسرے ٹوئٹ نے بھارت میں نریدر مودی کی حکومت کی پوزیشن بہت خراب کر دی ہے۔ ٹرمپ نے کشمیر پر بھی ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ جو بھی مودی کے لیے سیاسی موت سے کم نہیں۔ اسی لیے ایک طرف پاکستان امریکا کا شکریہ ادا کر رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت جس نے امریکا کو سیز فائر کی درخواست کی ہے وہ شکریہ بھی نہیں ادا کر پا رہا ہے۔ بلکہ یہ صفائیاں دے رہا ہے کہ اس نے سیز فائر کی درخواست نہیں کی۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات