41.6 C
Lahore
Tuesday, May 13, 2025
ہومغزہ لہو لہوسیاسی انتشارکا خاتمہ، ضروری مگر ہو کیسے؟

سیاسی انتشارکا خاتمہ، ضروری مگر ہو کیسے؟


2017میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کی متنازع عدالتی نااہلی کے باعث شاہد خاقان عباسی نے اپنی پارٹی میں الگ بات کرنے کی ایک کوشش کی تھی۔ پھر مسلم لیگ ن کے ہی ایک اور رہنما مفتاح اسمٰعیل سے مل کر اپنی الگ سیاسی پارٹی بنائی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رہنما اور خیبر پختو نخوا کے سابق وزیر اعلیٰ سردار مہتاب عباسی بھی ان کے ہم سفر بن گئے اور کوئٹہ جا کر شاہد خاقان عباسی نے بلوچ رہنما لشکری رئیسانی کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ ملک میں سیاسی انتشار کے خاتمے تک ملک آگے نہیں جا سکتا۔ سیاسی انتشار کا خاتمہ کیسے ہوگا وہ طریقہ سابق وزیر اعظم نے نہیں بتایا اور نہ ان کی پارٹی کی اس وقت اتنی سیاسی حیثیت ہے کہ وہ ملک سے سیاسی انتشار کے خاتمے میں کوئی کردار ہی ادا کر سکے کیونکہ کسی سابق وزیر اعظم کا نیا کردار ایسا ہوتا ہے نہ ان کے پارٹی بنا لینے سے ملکی سیاست میں بہتری ممکن ہے۔

بلوچستان کی سابق حکمران پارٹی باپ کے سینیٹر دنیش کمار نے ملک سے سیاسی انتشار کے خاتمے کے بجائے یہ تجویز دی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کرکے ہمارے دشمن ملک بھارت کو پاکستانی قوم کے متحد ہونے کا پیغام دیا جائے۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کی بھی یہی سوچ ہے کہ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت صرف بانی پی ٹی آئی کے پاس ہے اور موجودہ جنگی صورت حال میں سزا یافتہ بانی پی ٹی آئی ہی رہا ہو کر ملک کو سیاسی انتشار سے بچا کر ملک کو مضبوط بنا سکتے ہیں اور ایسی صلاحیت موجودہ حکمرانوں میں نہیں ہے۔

 ایک طرف پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا اپنے بانی کی رہائی کا مطالبہ ہے تو دوسری طرف اس کے 3 سال سے مفرور رہنما اور بانی کے دست راست مراد سعید پاک فوج اور موجودہ حکومت کے خلاف مذموم اور گمراہ کن اور ملک میں انتشار اور نفرت پھیلانے کے بیانات دے رہے ہیں مگر گرفتاری سے بچنے کے لیے خود سامنے نہیں آ رہے اور چھپے بیٹھے ہیں مگر انھیںاپنی پارٹی سے بھی مدد نہیں مل رہی اور ان پر پارٹی میں ہی سے الزامات لگ رہے ہیں کہ وہ صرف اپنی سیاست چمکا رہے ہیں اور عملی طور پر کچھ بھی نہیں کر رہے ۔ ملک میں سیاسی انتشار ہر دور میں رہا ہے۔ سیاسی حکومتیں اور جماعتیں خود ملک میں انتشار پھیلا کر غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع دیتی رہی ہیں پھر ان کے خلاف اتحاد کرکے جدوجہد بھی کرتی رہیں۔

2014 میں بانی پی ٹی آئی نے (ن) لیگی حکومت کے خلاف دھرنا دے کر جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہا تھا، پی پی اور (ن) لیگ نے ناکام بنا دیا تھا مگر پی ٹی آئی ملک میں سیاسی انتشار بڑھایا جو 2018 میں عروج پر پہنچا ۔ 2022 میں بانی کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے آئینی راستے سے ہٹایا گیا لیکن اس آئینی تبدیلی کو پی ٹی آئی نے قبول نہیں کیا اور بانی نے غیر ضروری جلسے کیے اور قبل از وقت اپنی پنجاب اور کے پی کی حکومتیں اپنے سیاسی مفاد کے لیے خود ختم کرا کر ملک میں انتشار انتہا پر پہنچایا تھا ۔

بانی کی قید، سزا و معاملات کے وہ خود ذمے دار ہیں ۔حکومت اگر بانی کو رہا بھی کرا دے تب بھی پی ٹی آئی اپنے اقتدار کے لیے حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گی اور بانی رہا ہو کر سیاسی انتشار اپنے سیاسی مفاد کے لیے خود بڑھائیں گے تو حکومت کی پارٹیاں ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گی۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات