40.6 C
Lahore
Monday, May 12, 2025
ہومغزہ لہو لہو'پیام مشرق' بنام مشرق - ایکسپریس اردو

‘پیام مشرق’ بنام مشرق – ایکسپریس اردو


‘ پیام مشرق’ کو منصہ شہود پر آئے پورے سو برس بیت گئے۔ ہمارے ڈاکٹر تحسین فراقی اور ان کی بزم اقبال نے اس موقع کو ضایع نہیں جانے دیا۔ ‘ پیام مشرق ‘ کا ڈی لکس ایڈیشن شائع کر کے اس موقع کو یادگار بنا دیا ہے۔ اس پر وہ اور ان کا ادارہ مبارک باد کا مستحق ہے۔گوئٹے کی مشرق کے اسرار میں دل چسپی اور اس کے دیوان نے افکار کی دنیا میں کیا ہل چل مچائی؟ اقبال کی ‘ پیام مشرق ‘ اسی سوال کا جواب ہے۔

یہ ناگزیر تھا کہ ‘پیام مشرق’ کی صدی مکمل ہونے پر اس کا پس منظر کو بیان کیا جائے جس کی وجہ سے یہ شاہ کار وجود میں آیا۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے یہ اہم کام بڑے اہتمام سے کیا ہے اور اس مقصد کے لیے قریباً 80 صفحات پر مشتمل ایک دیباچہ تحریر کیا ہے۔ دیباچے میں انھوں نے اقبال اور گوئٹے کی شخصیت اور فکر کے ضروری حصوں پر روشنی ڈالی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کے اس دیباچے میں وجد کی کیفیت ہے اور ان کے قلم سے الفاظ کسی قدرتی جھرنے کی طرح بہتے چلے گئے ہیں۔ ایک آمد کی سی کیفیت ہے جس میں وہ اقبال اور گوئٹے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

ان کے فکر کو چھوتے ہوئے اس کی گہرائی اور گیرائی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ‘ پیام مشرق ‘ کے انتساب کو اگر اس مجموعے کا حاصل سمجھا جائے تو غلط نہ ہو گا جس میں اقبال امیر امان اللہ خان کو بتاتے ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب کیا ہیں اور اس کی اپنی قوم خوار و زبوں کیوں ہے۔ ڈاکٹر فراقی دیباچے میں اقبال کے اس فکری شاہ کار کے اس حصے کو چھوتے ہوئے ان کے شعری مزاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں پھر ان کے کلام کے فنی کمالات پر روشنی ڈالتے ہیں۔

‘ پیام مشرق ‘ معمولی کتاب نہیں، اس کا شمار دنیائے فکر کی امہات کتب میں کیا جانا چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے دیباچے میں بھی اسی علمی معراج پر نظر آتے ہیں اور وہ ایک جوئے رواں میں اقبال کے موضوعات اور تصورات کا تذکرہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

اقبال کے ساتھ ایک نہیں کئی حادثات ہوئے ہیں۔ حادثے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ان کے شارحین اور مترجمین نے ان کی ترجمانی کے نام پر اپنے خیالات کی ترجمانی کی ہے لہٰذا لوگوں تک اصل اقبال تو نہیں پہنچ سکا، وہ اقبال پہنچ گیا جو وہ نہیں تھا لہٰذا اقبال کے بارے میں غلط فہمیوں کا ایک جہان وجود میں آ گیا۔ اقبال کے ساتھ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ کچھ لوگ اقبال کو پڑھے اور سمجھے بغیر ماہرین اقبالیات بن گئے جنھوں نے اقبال کے بارے ایسی ایسی درفنطنیاں چھوڑیں جن کی برکت سے وہ صرف اور صرف کسی علامہ یا مولوی کا اقبال بن کر رہ گیا۔

خوش قسمتی سے اگر یہ مخلوق اس دیباچے سے کسی قدر فیض حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی تو آیندہ چند دہائیوں کے لیے ان کی گفتگو میں کام کی کچھ باتیں بھی شامل ہو جائیں گی۔ اس اعتبار سے یہ دیباچہ گویا ایک صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کا نور طویل عرصے تک ہمارے قلب و نظر کو فیض یاب کرتا رہے گا۔اس حقیقت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ ‘ پیام مشرق ‘ ایک علمی اور فکری شاہ کار ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تحریر کو اس کے بلند معیار سے نیچے نہیں اترنے دیا۔ ماہر اقبالیات کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب کی یہ خدمت تادیر یاد رکھی جائے گی اور اس سے استفادہ کیا جاتا رہے گا۔

بلند خیالی اقبال کے مزاج کا سب سے بڑا وصف ہے لیکن اپنے اس وصف میں وہ جتنے عروج پر جاتے ہیں اتنے ہی بے باک بھی ہو جاتے ہیں اور جہاں محسوس کرتے ہیں، خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے کہہ کر وہ کچھ نہ کچھ کہہ جاتے ہیں جسے سن کر ہما شما سناٹے میں آ جاتے ہیں۔ ان کا ‘ شکوہ ‘ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔

ان سطور کے لکھنے والے کو کوئی دعویٰ تو ہرگز نہیں۔ وہ خود کو اقبال کے خوشہ چینوں کے ہم مرتبہ سمجھنے کی جرات رندانہ بھی نہیں رکھتا البتہ ایک عامی کی حیثیت سے اس کے ذہن میں کچھ سوالات ہیں جو پریشانی میں بدل چکے ہیں۔ تفصیل سے بچنے کے لیے اس پریشانی کو اگر ایک سوال کی صورت دی جائے تو یہ ہو گی کہ ‘ پیام مشرق ‘ کا ہماری آج کی زندگی سے تعلق کیا ہے؟

یہ سوال اتنا آسان نہیں۔ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اتنے بڑے فلسفی کے فلسفے کو زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کے ساتھ جوڑنا کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ اعتراض وزن رکھتا ہے لیکن اپنے مشفق و مہرباں ڈاکٹر تحسین فراقی سے مجھے ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ ان کے لطف و کرم سے میں ہمیشہ فیض یاب رہا ہوں۔ اس لیے میں اپنے ٹوٹے پھوٹے خیالات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں۔ہمارے آج کا سلگتا ہوا مسئلہ فلسطین ہے جہاں دشمن نے باقاعدہ نسل کشی کر کے پچاس ہزار سے زائد مسلمان تہہ تیغ اور غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔

ہماری سرزمینوں پر صرف فلسطین اور کشمیر ہی تو دو ایسے خطے نہیں جہاں ظلم ہو رہا ہے اور لہو بہہ رہا ہے۔ نگاہ جس طرف بھی اٹھتی ہے، ایک ہی ماجرا دکھائی دیتا ہے۔ سوویت یونین ہو یا امریکا، باہر سے آنے والوں نے بھی افغانستان میں بہت تباہی مچائی اور پانی کی طرح خون بہایا ہے لیکن یہ خون ریزی اور تباہی اس سے کہیں کم ہے جتنی خود اس سرزمین پر بسنے والوں نے کی ہے۔

ہم جانتے بھی ہیں اور ہمیں بتایا بھی جاتا ہے کہ قدرت نے جتنی دولت اور جتنے خزانے ہمیں عطا کیے ہیں، شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئے ہوں۔ کیا وجہ ہے کہ غربت اس کے باوجود ہمارے معاشروں میں ہی ننگا ناچ ناچتی ہے۔ کیا سبب ہے کہ ہماری دولت خود ہمارے اپنے کام نہیں آتی اور یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم نادار ہیں اور کمزور بھی۔

یہ بات ان چند سوالوں پر ختم نہیں ہو جاتی، سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا اور کوئی نہیں ہے جو ہمارے زخموں پر مرہم رکھ کر ہماری بے چینی کو چین میں بدل سکے۔

گھمسان کے اس رن میں میرا سوال یہی ہے کہ وہ حکیم الامت جس نے ایک صدی پیش تر ہمارے مرض کی ٹھیک ٹھیک تشخیص کر کے ایک شافی نسخہ تجویز کیا تھا، اس کی بیاض میں ہمارے تازہ دکھوں کا بھی کوئی علاج ہے کہ نہیں؟ ‘پیام مشرق’ میرے لیے اسی وجہ سے اہم ہے اور میں اسی نیت سے اس کے مطالعے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اچھا ہوتا کہ ڈاکٹر تحسین فراقی ہماری کچھ راہ نمائی اس ضمن میں بھی کرتے۔ ‘ پیام مشرق’ ان سوالوں کا جواب فراہم کرتی ہے تو میرا خیال ہے کہ اس کی وضاحت کے لیے ڈاکٹر صاحب کو 80 مزید صفحات لکھنے پڑیں گے، اگر بدقسمتی سے جواب فراہم نہیں کرتی تو بھی اتنا ہی طویل ایک اور مقدمہ لکھنے کی ضرورت ہو گی۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات