31.4 C
Lahore
Monday, May 12, 2025
ہومغزہ لہو لہو’’پاک بھارت کشیدگی: کیا پرامن راستہ اب بھی ممکن ہے‘‘

’’پاک بھارت کشیدگی: کیا پرامن راستہ اب بھی ممکن ہے‘‘


گزشتہ چند ہفتوں سے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت اس نہج پر پہنچ چکے ہیں، جہاں معمولی غلطی کسی بڑے سانحے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے شہروں اور فوجی تنصیبات پر میزائلوں کے حملوں اور سفارتی سطح پر سرد مہری پورے جنوبی ایشیا کو غیر یقینی صورتحال میں دھکیل رہی ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ نے بھارتی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کو باضابطہ خطوط ارسال کیے ہیں۔ ادھر بھارتی میڈیا اور سیاستدان صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کے مطابق: ’’پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ صرف سرحدی جھڑپیں نہیں بلکہ اعتماد کا فقدان ہے۔

دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ کھلے دل سے مکالمہ کریں، ورنہ ایک غلطی بھی ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘ انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد (ISSI) کی حالیہ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’’جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے جامع مذاکرات اور عوامی رابطے ناگزیر ہیں۔

دونوں ممالک کو ’پرامن بقائے باہمی‘ کے اصولوں پر واپس آنا ہو گا۔‘‘افسوسناک امر یہ ہے کہ دونوں ممالک کے ٹی وی چینلز، خاص طور پر پرائم ٹائم ٹاک شوز میں حب الوطنی کے نام پر اشتعال انگیزی کو ہوا دی جا رہی ہے۔تاریخی اعتبار سے کشمیر 1947 سے اب تک دونوں ممالک تین بڑی جنگیں اور متعدد سرحدی جھڑپیں لڑ چکے ہیں، جن کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر رہا ہے۔ممکنہ حل صرف ایک ہی ہے کہ فوری جنگ بندی اور ہارٹ لائن رابطے بحال کیے جائیں، ایل او سی پر 2003 کے جنگ بندی معاہدے کی مکمل بحالی ہو۔ اسلام آباد اور دہلی میں مکمل سفارتی نمایندگی کی بحالی اور جامع مذاکرات کا ازسرنو آغازہو اور ’’اعتماد سازی اقدامات‘‘ (CBMs) پر سنجیدگی سے عمل درآمد کیا جائے کیا جائے۔کشمیر پر بامعنی مکالمہ شروع ہو اور اس دیرینہ مسئلے پر بات چیت میں کشمیری قیادت کی شمولیت، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بنیاد بنایا جائے۔

دونوں ملکوں کے درمیان عوامی و ثقافتی روابط کا فروغ ھو، طلباء، صحافیوں، فلم سازوں، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے تبادلوں کے لیے خصوصی ویزا اسکیمز شروع کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف کے میڈیا ہاؤسز کے درمیان تعاون کا فروغ۔ معاشی تعلقات کی بحالی کے لیے بھی کام کیا جائے، تجارت، پانی، توانائی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے شعبوں میں سنجیدہ باہمی تعاون ہو۔ دونوں ملکوں کے درمیان امن کی بحالی کے لیے لازم ہے کہ میڈیا کا کردار ذمے دارانہ ہو۔ کیونکہ اگر میڈیا جنگ کا ساز بن جائے، تو وہ صحافت نہیں بلکہ پروپیگنڈہ بن جاتی ہے۔ ہمیں ’پیس جرنلزم‘ کو فروغ دینا ہو گا۔

ان سب چیزوں پر عمل درآمد صرف اسی صورت ہو سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے حکمران نیک نیتی سیآگے بڑھنے کا فیصلہ کریں۔ پاکستان اور بھارت کی نوجوان آبادی آج تعلیم، روزگار، امن اور آزادی چاہتی ہے۔ انھیں جنگ، بارود اور لاشیں نہیں چاہئیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر جنگ کے بعد بالآخر مذاکرات ہی ہوتے ہیں، تو کیوں نہ پہلے ہی بات کر لی جائے؟ جنگ صرف تباہی لاتی ہے، جب کہ امن ترقی، خوشحالی اور انسانی وقار کی ضمانت بنتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیاں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں ساحر لدھیانوی کی یہ نظم ہم سب کے لیے رہنما ہے۔

’’اے شریف انسانو‘‘

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسلِ آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امنِ عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر

روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے

زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میّتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لیے اے شریف انسانو!

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات