پانچ مئی کا دن آیا اورگزرگیا۔ شاید بہت سوں کو یاد نہ رہا ہوکہ اسی دن جرمنی کے ایک چھوٹے سے شہر ٹریر میں ایک بچہ پیدا ہوا تھا جس نے اپنی آنکھوں میں ایک خواب بسایا تھا وہ خواب جس میں مزدورکا ہاتھ خالی نہ ہو، کسان بھوکا نہ ہو اور عورت محض جسم نہ سمجھی جائے، وہ بچہ کارل مارکس تھا۔
مارکس ایک ایسا نام جو سرمایہ دارکی نیندیں اڑا دیتا ہے اور پسے ہوئے انسان کے سینے میں امید کی ایک کرن جگا دیتا ہے، مگر یہ وہ مارکس بھی ہے جس کی زندگی کا ہر صفحہ دکھ، فاقہ، جلا وطنی اور محرومیوں کی تحریر سے بھرا ہوا ہے۔ میں نے ایک بار لکھا تھا کہ دنیا کے بڑے خواب دیکھنے والوں کو اپنے خوابوں کی قیمت جسم اور روح سے ادا کرنا پڑتی ہے۔ مارکس انھی خواب دیکھنے والوں میں سے ایک تھا۔ اس نے محض لکھا نہیں جھیلا بھی، وہ سب کچھ جسے لکھنے کے لیے بڑا دل اور مسلسل اذیتوں کا سامنا درکار ہوتا ہے۔
مارکس کے خواب بہت بڑے تھے لیکن زندگی چھوٹی سخت اور سرد تھی۔ لندن کی گلیوں میں ایک ایسا شخص رہتا تھا جس کے نظریے نے دنیا کو بدلنے کی بنیاد رکھی لیکن جس کے گھر میں اکثرکوئلہ نہ ہوتا اور جس کے بچے بھوک اور بیماری سے ایک ایک کر کے ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے دنیا سے رخصت ہوتے گئے۔اس کی جینی اس کی شریکِ حیات جس نے مارکس کے دکھ اپنے آنچل میں سمیٹ رکھے تھے وہ خاموشی سے اس کے ساتھ فاقوں کی دہلیز پر بیٹھی رہی۔ اس کی آنکھوں نے اپنے بچوں کو مرتے دیکھا مگر اس کی زبان پر شکوہ نہ آیا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ سب ایک بڑے خواب کا حصہ ہے، وہ خواب جو مارکس نے دیکھا تھا ایک ایسا جہاں جہاں کوئی بچہ بھوکا نہ سوئے۔
مارکس نے کہا تھا ’’ فلاسفہ نے دنیا کو مختلف انداز سے سمجھایا ہے، اصل کام تو اسے بدلنا ہے۔‘‘ یہ جملہ محض فلسفہ نہیں ایک اعلان تھا۔ ایک اعلان جنگ اس نظام کے خلاف جو دولت کو خدا بناتا ہے اور انسان کو غلام۔ مارکس کا قلم وہ ہتھیار تھا جس نے سرمایہ داری کی بنیادوں کو ہلایا اور تاریخ کو ایک نئی زبان عطا کی، جدوجہد کی زبان، سوال کی زبان اور بغاوت کی زبان۔جب وہ لکھتا ہے کہ’’ مزدور کی محنت سے سب کچھ پیدا ہوتا ہے لیکن خود مزدور محروم رہتا ہے‘‘ تو میرے سامنے سندھ کی وہ عورتیں آجاتی ہیں جوکپاس چنتی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں چھالے ہوتے ہیں۔ جب وہ کہتا ہے کہ’’ سرمایہ خون چوستا ہے دن ہو یا رات‘‘ تو مجھے فیکٹریوں میں کام کرتے وہ بچے یاد آ جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں نیند ہے لیکن تنخواہ محض چند سکے۔
مارکس نے محض معیشت کی بات نہیں کی، اس نے انسان کے رشتے اس کی اجنبیت اس کی بیگانگی کی بھی بات کی۔ اس نے کہا کہ سرمایہ داری انسان کو انسان سے جدا کردیتی ہے، اسے چیزوں سے جوڑتی ہے اور اس کے جذبے اس کی تخلیق اس کی روح سب کچھ بازار کے حوالے کردیتی ہے۔اس کا کمیونسٹ مینی فیسٹو ہو یا داس کیپیٹل ہر صفحہ مزدورکے لیے لکھا گیا ہے۔ ہر سطر میں کسان کی فریاد ہے، ہر دلیل میں عورت کے استحصال کی بازگشت ہے۔ اس کی تحریریں صرف کتابیں نہیں وہ ایک تحریک ہیں، ایک وہ مشعل جو آج بھی جل رہی ہے، اگرچہ ہوائیں اسے بجھانے کی ہر کوشش کرچکی ہیں۔
مارکس کے کئی بچے مرگئے۔ وہ خود بھی ساری زندگی معاشی تنگی کا شکار رہا۔ اس نے لکھا مگر اس کی تحریریں برسوں بعد چھپیں۔ اس نے بولنا چاہا مگر اکثر جلا وطن کردیا گیا۔ وہ جہاں گیا وہاں کی ریاستوں نے اس پر پہرہ بٹھا دیا۔ اس کے لیے کوئی اعزازکوئی خطاب کوئی آسائش نہ تھی، لیکن تاریخ نے اس کے نظریے کو تسلیم کیا۔ روس کے انقلاب سے لے کر ویتنام کیوبا چین اور دنیا بھرکی مزدور تحریکوں تک ہر جگہ اس کی آواز گونجی۔ میں یہ کہنے میں تامل محسوس نہیں کرتی کہ مارکس کا خواب آج بھی ادھورا ہے۔
آج بھی پاکستان سے لے کر فلسطین تک بنگلہ دیش سے لے کر برازیل تک مزدور پس رہا ہے، کسان خود کشیاں کر رہا ہے، عورت آج بھی کم اجرت پہ مزدوری کر رہی ہے اور دوہری چکی میں پس رہی ہے۔ وہ نظام جو مارکس نے ناپسند کیا آج بھی قائم ہے اور دن بہ دن اس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ مگر میں جانتی ہوں، خواب مرتے نہیں۔ خواب سفرکرتے ہیں، نسل در نسل۔ مارکس ہماری آنکھوں میں خوابوں کے دیپ جلا گیا۔ ہم وہ قافلے والے ہیں جن کے قدم تھمتے نہیں۔ ہم وہ چراغ ہیں جو اندھیروں سے نبرد آزما رہتے ہیں۔
پانچ مئی کا دن میرے لیے صرف مارکس کی سالگرہ نہیں، ایک عہد کی تجدید کا دن ہے۔ میں ہر سال اس دن خود سے وعدہ کرتی ہوں کہ جب تک میرے قلم میں سیاہی ہے جب تک میری سانسوں میں حرارت ہے، میں اس خواب کو زندہ رکھوں گی جسے مارکس نے دیکھا تھا۔
میں اس سچ کو لکھتی رہوں گی جس سے سرمایہ دار خوف کھاتا ہے اور مزدور حوصلہ پاتا ہے۔مارکس آج بھی زندہ ہے ہر فیکٹری میں ہرکھیت میں ہر خواب دیکھتی آنکھ میں ہر احتجاجی نعرے میں۔ وہ ہمیں پکار رہا ہے کہ ’’آؤ میرے خواب کو حقیقت میں بدل دو۔ ‘‘مارکس کے خوابوں کا ذکرکرنا صرف ایک شخص کی زندگی بیان کرنا نہیں بلکہ اس نظریے کی بات کرنا ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے۔ جو ہر اس جگہ زندہ ہے جہاں مزدور اپنا پسینہ بہا رہا ہے مگر اس کا پھل کوئی اور کھا رہا ہے۔ وہ نظریہ جو ہر اس عورت کے دل میں دھڑک رہا ہے جو اپنی اجرت کے لیے آواز اٹھاتی ہے ہر اس کسان کے خون میں گردش کر رہا ہے جو زمین کو سینچتا ہے مگر بدلے میں قرضوں کی زنجیر پاتا ہے۔
آج جب ہم مارکس کی سالگرہ پر اسے یاد کر رہے ہیں تو صرف ایک فلسفی کو خراج نہیں پیش کر رہے بلکہ اس روشنی کو سلام کر رہے ہیں جس نے صدیوں سے جاری اندھیروں میں چراغ جلایا۔ مارکس نے ہمیں یہ سکھایا کہ دنیا کو صرف قبول نہ کرو، اسے سمجھو اور پھر اسے بدلنے کے لیے کمربستہ ہو جاؤ۔ اس کا ہر جملہ ایک صدا ہے ہر خیال ایک سوال ہر سطر ایک بغاوت۔ہم یہ بھی نہیں بھول سکتے کہ مارکس اکیلا نہ تھا۔
وہ ایک تحریک کی علامت ضرور ہے مگر اس کی سوچ نے دنیا بھرکے دانشوروں مزدور رہنماؤں ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کو متاثرکیا۔ پاکستان میں ہی فیض احمد فیض، جالب، حسن ناصر اور ان جیسے سیکڑوں لوگ مارکس کی فکر سے جڑے اور ان کی زندگیاں بھی اسی خواب کی تعبیر تھی۔ فیض کی نظموں میں جالب کی للکار میں حسن ناصرکی شہادت میں ہمیں وہی آواز سنائی دیتی ہے جسے مارکس نے سب سے پہلے بلند کیا تھا۔