بچپن سے سنتے، پڑھتے اور دیکھتے آئے ہیں کہ ماں دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہے۔ ماں کی گود وہ پہلا مکتب ہے، جہاں انسان زندگی کے سبق سیکھتا ہے، اور یہی وہ آغوشِ محبت ہے، جہاں ہر درد کا مداوا اور ہر خوف کا علاج موجود ہوتا ہے۔ حسن، خلوص، وفا، ایثار، اور بے لوث محبت کے سارے رنگ اگر ایک وجود میں سمٹ جائیں تو وہ ماں ہے۔
ماں کا رشتہ ان مول ہے، ماں کی محبت بے حساب ہے۔ اس کی قربانیوں کا شمار ممکن نہیں اور اس کے احسانات کا بدلہ دینا بھی ناممکن ہے۔ ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر جب دنیا بھر میں لوگ اپنی ماؤں کے ساتھ تصاویر مشتہر کرتے ہیں یا ان کے لیے محبت بھرے جملے لکھتے ہیں، تو یہ ایک خوب صورت عمل ضرور ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ماں جیسی عظیم ہستی کے لیے صرف ایک دن کافی ہے؟
ماؤں کی قربانی اور جدوجہد کا دائرہ صرف ہمارے بچپن یا بیماری تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ وہ ہماری زندگی کے ہر موڑ پر ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔ ماں صرف ایک دن کی محبت کی مستحق نہیں، بلکہ وہ ہر دن، ہر لمحے، ہر سانس کی محبت کی حق دار ہے۔ ’مدرز ڈے‘ کا مقصد صرف ایک دن محبت کا اظہار نہیں، بلکہ ہمیں یہ یاد دہانی کروانا ہے کہ ماں کی قدر ہر دن کرنا ضروری ہے۔
’مدرز ڈے‘ مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کی ابتدا امریکا کی اینا جارویس نے 1908 میں اپنی ماں کی یاد میں کی تھی، تاکہ ایک ایسا دن مخصوص کیا جا سکے، جس میں دنیا بھر کے بچے اپنی ماؤں کی قربانیوں اور محبت کا اعتراف کریں۔ مختلف ثقافتوں میں اس دن کو مختلف انداز سے منایا جاتا ہے، لیکن اس کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے کہ ماں کی عظمت کو سلام پیش کیا جائے۔
اسلامی تعلیمات میں بھی ماں کا مقام بہت بلند ہے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘ قرآن اور احادیث میں بارہا والدین کے ساتھ حسن سلوک اور خاص طور پر ماں کی خدمت پر زور دیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے ماں کے حقوق کو کتنا اہم مقام دیا ہے۔
لیکن جہاں ماؤں کے حقوق ہیں، وہیں کچھ فرائض بھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں ہمارا اس وقت سے خیال رکھتی ہے اور محبت کرتی ہے، جب ہمارا اس دنیا میں نام و نشان بھی ہوتا۔ اس ہی لیے کہا جاتا ہے کہ ماں کی محبت دنیا والوں کی محبت سے نو ماہ زیادہ ہوتی ہے۔
زندگی کے تمام رنگ، تمام پہلو اور ہر روپ عورت کے وجود سے مکمل ہوتے ہیں۔ عورت نہ صرف زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، بلکہ وہ ہر شعبے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی عظمت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہے۔
آج کے اس پرآشوب دور میں نئی نسل کی حفاظت ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے، لیکن یہ ماں ہی ہے جو جس کی بدولت انسانیت کا وجود آج بھی قائم ہے۔ اللہ نے عورت میں بہ حیثیت ماں وہ تین خوبیاں رکھی ہیں جن پر تمام انسانیت کا دارومدار آج بھی قائم ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو نئی زندگی کو جنم دیتی ہے، پھر محبت اس کو پروان چڑھاتی ہے اور اس کی نشوو نما کرتی ہے اور پھر وہ انسان اور معاشرے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اگرچہ بچے کی پیدائش اور پرورش ہر عورت کے لیے ممکن ہے، لیکن تبدیلی کا عمل صرف وہی عورت کر سکتی ہے، جو خود اپنی حیثیت اور اہمیت سے واقف ہو۔ ایسی باشعور عورتیں نہ صرف نسلوں کی تربیت کرتی ہیں بلکہ قوموں کی تقدیر بھی سنوارتی ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر کام یاب انسان کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
بچے دنیا میں بالکل سادہ اور معصوم آتے ہیں، ماں کی گود ان کا پہلا مدرسہ ہوتی ہے۔ وہ جیسے الفاظ سنتے ہیں، جیسا رویہ دیکھتے ہیں، ویسی ہی شخصیت تشکیل پاتے ہیں۔ بچہ ایک خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے جس پر ابتدائی نقوش ماں ہی ثبت کرتی ہے۔ اس کے خیالات، اقدار اور اخلاقیات کی بنیاد جتنی مضبوط ہوگی، وہ اتنی ہی کام یاب شخصیت بنے گا۔
ترقی یافتہ معاشروں کی بنیاد ان عورتوں پر ہے جو اپنے بچوں میں اعلیٰ سوچ، نیکی، دیانت اور خودداری جیسے جوہر پیدا کرتی ہیں۔ جب تک عورت یہ ذمہ داری محسوس نہیں کرے گی، نسلیں پروان نہیں چڑھ سکتیں، کیوں کہ صرف جسمانی افزائش کافی نہیں، اصل ترقی فکری و اخلاقی تربیت سے ہوتی ہے۔
اس ضمن میں جارج برنارڈ شا کا ذکر اہم ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بچپن میں ان کے اکثر کام غلط ہوتے تھے، لیکن ان کی ماں ان کے ایک درست کام کو بڑے فخر سے بیان کرتی تھیں۔ اس محبت نے ان میں بہتری لانے کی تحریک دی اور وہ دن بہ دن کام یابی کی طرف بڑھتے گئے۔ یہ ماں کی حوصلہ افزائی تھی جس نے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی۔
اسی طرح تھامس ایڈیسن کی کہانی بھی ایک عظیم ماں کی بصیرت کا عکس ہے۔ ایک دن ایڈیسن اسکول سے ایک خط لایا، جس میں لکھا تھا کہ وہ ذہنی طور پر کمزور ہے اور اسے اسکول سے نکال دیا گیا ہے۔ مگر اس کی ماں نے وہ خط پڑھ کر کہا ’’تم بہت جینیئس ہو، اس اسکول کے اساتذہ تمھیں نہیں پڑھا سکتے۔‘‘ یہی الفاظ ایڈیسن کی طاقت بنے، اور ایک دن وہ 1093 ایجادات کا مالک بن گیا، جن میں بلب بھی شامل ہے۔ ایڈیسن خود کہتا ہے ’’میری ماں نے مجھے وہ انسان بنایا جو میں آج ہوں۔‘‘
یہ تمام مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ عورت صرف زندگی دیتی نہیں، بلکہ اس کی تشکیل بھی کرتی ہے۔ وہ کردار بناتی ہے، قومیں اٹھاتی ہے اور دنیا کو بہتر بناتی ہے۔
اسلامی تعلیمات میں ماں کا مقام دنیا کے ہر رشتے سے بلند ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ ماں کو والد سے بھی تین گنا زیادہ احترام کا مستحق قرار دیا گیا۔ ایک صحابی نے نبی کریم سے پوچھا ’’میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’تمھاری ماں‘‘ تین بار یہی جواب دیا، اور چوتھی بار فرمایا ’’تمھارا باپ‘‘
حضور اکرم نے ماں کی نافرمانی کو حرام قرار دیا اور اسے جنت کے دروازے بند ہونے کا سبب بتایا۔ ایک بار ایک صحابی نے بڑے گناہ کی توبہ کی صورت پوچھی تو نبی کریم نے فرمایا ’’اپنی ماں سے نیکی کرو‘‘
اسلام نے عورت، خصوصاً ماں کو وہ عزت بخشی ہے، جس کی مثال دنیا کے کسی اور نظام میں نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں ’’مدرز ڈے‘‘ کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی جاتی کہ ہمارے یہاں ماں کا دن ہر دن ہے، اور اس کی عظمت ہر وقت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
آج اگر ہم واقعی معاشرتی، اخلاقی اور تعلیمی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ماؤں کو شعور، عزت، تعلیم اور مواقع دینے ہوں گے۔ کیوں کہ جو ماں خود باشعور ہوگی، وہی ایک باشعور نسل پروان چڑھا سکتی ہے اور ایسی مائیں ہی ہیں جو کائنات میں رنگ بھرتی ہیں، زندگی کو سوز دیتی ہیں اور نسلوں کو روشنی عطا کرتی ہیں۔
’مدرز ڈے‘ منانا ایک خوب صورت روایت ضرور ہے، لیکن ہماری ذمہ داری اس سے بہت آگے بڑھ کر ہے۔ ماں وہ ہستی ہے، جو ہماری پیدائش سے پہلے بھی ہمیں سنبھالتی ہے اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک ہمارے لیے جیتی ہے۔ ماں کو صرف ایک دن کی نہیں، ہر دن کی خوشی چاہیے، ہر لمحے کی دعائیں اور ہر گھڑی کی عزت۔
لہٰذا اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ یہ دن صرف ماں سے اظہار محبت کا ایک موقع نہیں، بلکہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ماں کی قدر و قیمت ہمیشہ دل و دماغ میں تازہ رکھنی چاہیے۔ اگر ہم ہر دن کو ’مدرز ڈے‘ بنا دیں تو شاید تب بھی ماں کے احسانات کا بدلہ نہ چکا سکیں۔