32 C
Lahore
Wednesday, May 21, 2025
ہومغزہ لہو لہوچندہ برائے ہورڈنگ - ایکسپریس اردو

چندہ برائے ہورڈنگ – ایکسپریس اردو


ہم مرشد کے مرید ضرور ہیں لیکن ان کی طرح  ’’بہت پسند‘‘ طبیعت نہیں پائی ہے وہ تو شاہی زمانے میں تھے اس میں آم بھی میٹھے اور’’بہت پسند‘‘ کرتے تھے اور ہمیں تو ایک بھی’’آم‘‘ مل جائے تو غنیمت ہے کہ یہ شاہی زمانہ نہیں وزیری مشیری اور معاونی زمانہ ہے اور وہ خواہش بھی ہزاروں رکھتے تھے لیکن ہماری صرف ایک اور اکلوتی خواہش ہے لیکن اس ایک اور اکلوتی خواہش کی تکمیل میں بھی ہمارے دو ازلی وابدی اور جدی پشتی دشمن آڑے آرہے ہیں، ایک ’’خالی ہاتھ‘‘ اور دوسرا’’خالی جیب‘‘۔اور ہماری اس اکلوتی اونلی ون خواہش کی تکمیل کے لیے ہاتھ کا’’میل‘‘درکار ہے۔

دراصل ہم ایک پل پر ایک بڑا سا بورڈ یا ہورڈنگ لگانا چاہتے تھے لیکن جب ہم نے اس کی لاگت سنی تو ہاتھوں کے طوطے مینے،تیتر بٹیر بلکہ کان تک اڑ گئے۔اتنے پیسے ہمارے پاس ہوتے تو ہم اب تک اپنی کلوٹن رانی آبنوسی حسینہ اور کالی دیوی کنڈولیزارائس کے دیدار سے مشرف ہوکر آچکے ہوتے۔اس خواہش کا قصہ یوں ہے کہ ہمارا ایک بہت ہی پسندیدہ شعر ہے جو آج کل کے حالات کے لیے بیسٹ سیلر ہے۔خیر اگر بات ’’حالات‘‘ کی ہو تو اپنی اس مملکت خداداد کے حالات ہمیشہ سے اس شعر کے مصداق رہے ہیں لیکن آج کل کے حالات پر تو اتنا ٹھیک بیٹھتا ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ایسا لگتا ہے جیسے 77سال سے ملک کو اس شعر کے مطابق بنانے کے لیے اتنی محنت کی گئی ہو جو کامیاب ہوگئی۔

اس لیے ہم بڑے بڑے حروف میں لکھوا کر ایک جمبو قسم کا ہورڈنگ ایک خاص پل پر لگوانا چاہتے ہیں لیکن اڑچن کاغذ اعظم کی طرف سے پیش آرہی ہے ویسے تو ملک کے چپے چپے پر ایسے ہورڈنگز کی ضرورت ہے لیکن پھر وہی دو دشمن آکر سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں خالی ہاتھ اور خالی جیب۔خیر ہزاروں خواہشیں اور بہت سارے آم تو مرشد کو مبارک ویسے بھی بزرگوں نے کہا ہے کہ نیک کام کی ابتدا اپنی ’’دہلیز‘‘سے کرنی چاہیے یہ عظیم الشان،معانی ومفاہیم کی کان اور سمندر بہ کوزہ بند شعر نہ جانے کس کا ہے لیکن منظرعام پر یہ اس وقت آیا جب اس اندھے کی بیوی ’’خدا سپرد‘‘ ملک میں پہلی بار ایک ولولہ انگیز قیادت کی صورت جلوہ گر ہوئی جو بنیادی جمہوریت تخلص کرتی تھی۔ اس نے کنونشن لیگ نام کے بریف کیس میں ملک بھر سے چُن چُن کر’’دانے‘‘ جمع کیے تھے۔ اس وقت یہ شعر اسمبلی میں گونجا کہ ؎

ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے

انجام گلستاں کیا ہوگا؟

اس وقت ممتاز رہنماؤں نے اسے اپنے استحقاق پر قاتلانہ حملہ بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا استحقاق نہایت بُری طرح مجروح اور گھائل ہوا ہے۔یہ استحقاق نام کی چیز ہم نے کبھی دیکھی تو نہیں ہے لیکن سنا ہے بڑی نازک لطیف اور چھوئی موئی قسم کی ہوتی ہے۔چنانچہ اس وقت کے ممتاز رہنماؤں کا استحقاق اس وقت تک کوما میں اور صاحب فراش رہا جب تک ولولہ انگیز قیادت نے اس پر پلاٹوں اور پرمٹوں کا مرہم نہیں لگایا تھا۔آج کل چونکہ پلاٹ اور پرمٹ اپنے اپنے مستحقین کو پہنچائے جاچکے ہیں یا صرف بڑی توپوں کے قبضے میں ہیں اس لیے منتخب اور ممتاز رہنماؤں کی تواضع نقد ونقد یا نوکریوں سے کی جاتی ہے اس لیے سب کا استحقاق نہایت ہی محفوظ و مامون ہے۔

بہرحال یہ شعر ہمارا حرزجاں بنا ہوا ہے اور اس سے کسی استحقاق کو خطرہ بھی نہیں ہے کہ جن کی عزت ہزاروں من ہو ، ایک دو تولے سے اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔بہرحال آج کل ہم جب بھی بڑی بڑی خاردار تاروں سے مزین عمارتوں کو ’’دور‘‘ سے دیکھ لیتے ہیں کہ قریب جانے کے لیے لوہے کا جگر اور پتھر کا جگر چاہیے تو بے اختیار ہونٹوں پر یہ شعر طاری ہوجاتا ہے اور دکھ بھی ہوتا ہے کہ ہم اس شعر کا حق ادا نہیں کرپا رہے ہیں۔

خدا کی مار ہو ہمارے دونوں دشمنوں پر، کہ یہ زمانہ ہی جمبو قسم کے ہورڈنگز کا ہے، ہر سڑک کے کنارے اب درختوں کی جگہ ہورڈنگز لگائے جارہے ہیں، اندازہ اس سے لگائیں کہ اکثر لوگ جب ان سڑکوں پر سے گزرتے ہیں تو’’قے روک‘‘ گولیاں کھا کر گزرتے ہیں کیونکہ ان ہورڈنگز پر تصاویر بھی ہوتی ہیں۔اب ہمارے پاس صرف ایک راہ بچی ہے جو تمام راہوں کی شاہراہ ہے۔یعنی چندے کا دھندہ جو دنیا کا واحد دھندہ ہے جو کبھی مندہ نہیں ہوتا۔ جہاز ڈوب جائیں گے بینک دیوالیہ ہوجائیں گے پہاڑ اپنی جگہ سے سرک جائیں گے لیکن چندہ زندہ باد پایندہ باد اور ہمیشہ آیندہ باد۔اس لیے ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ ’’مخیرحضرات‘‘سے اپیل کریں گے کہ وہ اپنے مال حلال سے کچھ تو ادھر بھی کریں۔

ہمیں یقین ہے کہ ہمیں بھی ایسے کچھ مخیرحضرات مل جائیں گے کیونکہ آج کل چندے کے سارے دھندے ایسے ہی مال حلال والوں کے دم سے چل رہے ہیں بلکہ دوڑ رہے ہیں۔اب ہمیں کسی ایسے پل کا انتخاب کرنا ہے جو کسی علاقے کا مین گیٹ یا داخلی دروازہ ہو یعنی ایک طرف سے ’’اینڈ‘‘اور دوسری طرف سے ’’ان‘‘ہو اورا س سے آگے بڑے بڑے درخت ہوں جن میں بڑی بڑی شاخیں ہوں اور ان شاخوں پر بہت سارے’’ٹوان ون‘‘ بیٹھے ہوں یعنی جو بیک وقت اُلو بھی ہوں اور اُلو کے پٹھے بھی کیونکہ ہمارے ملک میں خدا کے فضل اور سیاست کی مہربانی سے کوئی بھی چیز’’اینڈ اونلی‘‘ نہیں ہوتی ٹو ان ون ہوتی ہے، ہر بہو کے اندر ایک’’ساس‘‘ اور ہر چور کے اندر ایک مور بھی براجمان ہوتا ہے، ہر بگلے کے اندر ایک چیل یا کوا بھی ہوتا ہے۔اس ہورڈنگ کی ضرورت اس لیے بھی شدید ہوگئی ہے کہ پچھلی دو تین’’فصلیں‘‘ اُلوؤں کی پیدائش افزائش اور نمائش کے لیے بڑی سازگار گزری ہیں بلکہ ان میں نئی ترقی دادہ نسلیں بھی پیدا ہوئی ہیں جو اپنی ذات میں دبستان اور خصوصی ہوتی ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات