23 C
Lahore
Friday, May 9, 2025
ہومغزہ لہو لہومردم دیدہ - ایکسپریس اردو

مردم دیدہ – ایکسپریس اردو


اردو میں خاکہ نگاری کا پہلا نمونہ مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریر ’’ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی‘‘ کی صورت میں ملتا ہے، تاہم اس سلسلے میں بعد میں آنے والی کتابوں میں ’’مردم دیدہ‘‘ کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ چراغ حسن حسرت کے یہ مضامین جامع اور مختصر ہیں، اسلوب رواں دوا شستہ اور دلچسپ ہے۔ ’’مردم دیدہ میں چند ایسے مشاہیر کی زندگی کے متعلق مضامین ہیں جن سے مصنف کے ذاتی طور پر مراسم رہے۔ حسرت صاحب کی خوش طبعی اور لطیف شگفتہ انداز بیاں نے کتاب کو دل آویزی بخش دی ہے۔

پہلا خاکہ آغا حشر کاشمیری کا ہے، لکھتے ہیں ’’آغا حشر اور ڈرامہ تینوں لفظ (آغا+حشر+ڈرامہ) میرے نزدیک بہت ڈراؤنے اور بھیانک تھے۔ پھر جب ہمارے ہاں ایک ڈرامیٹک کلب کی بنیاد پڑی اور اسیر حرس، سفید خون اور ’’خواب ہستی‘‘ کے نام ہر شخص کی زبان سے سنائی دینے لگے تو آغا حشر کا نام بھی ہر شخص کی زبان سے سنائی دینے لگا۔ اس دور افتادہ مقام پر لے دے کے یہی ایک تفریح تھی، اس لیے بوڑھے بچے، جوان سب تھیٹر دیکھے جاتے تھے۔‘‘

’’میں جس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں ابھی ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا، جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھا جسے لوگ زندہ ناچ گانا بھی کہتے تھے اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا، یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراماٹسٹ موجود تھے، جیسے طالب بنارسی، احسن، بے تاب، مائل سب کے سب تھیٹر کی لنکا کے باون گز تھے۔ لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ آغا سے پہلے اس فن کی قدر بھی کہاں تھی۔ بے چارے ڈراماٹسٹ تھیٹر کے منشی کہلاتے تھے۔‘‘

’’چارپائی پر آغا صاحب لنگی باندھے اور ایک کرتا پہنے لیٹے تھے، ہمیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھے، سر پر انگریزی فیشن کے بال، ڈاڑھی منڈی ہوئی، چھوٹی چھوٹی مونچھیں، دہرا جسم، سرخ و سفید رنگ، میانہ قد، ایک آنکھ میں نقص تھا، محفل میں بیٹھا ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ میری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔‘‘

’’آغا بڑے حاضر جواب اور بذلہ سنج شخص تھے، جس محفل میں جا بیٹھتے سب پر چھا جاتے، ان کے ملنے والوں میں اکثر لوگ ضلع جگت میں طاق تھے اور پھبتی کسنے میں بھی ان کا کوئی جواب نہ تھا اور جب شام کو صحبت گرم ہوتی تین تین چار چار آدمی مل کے آغا پر پھبتیوں کا جھاڑ باندھ دیا کرتے تھے، لیکن آغا چو مکھی لڑنا جانتے تھے۔ حریف دم بھر میں ہتھیار ڈال دیتا تھا لیکن آغا کی زبان نہ رکتی تھی۔

’’جس شخص سے بے تکلفی بڑھانا مقصود ہوتا، اسے اس بے ساختگی سے گالی دے بیٹھتے تھے کہ بے چارہ حیران رہ جاتا تھا۔ گالی۔۔۔۔ کا نام سن کر کچھ لوگ کہیں گے گالی دینا کہاں کا اخلاق ہے؟ لیکن آغا کنجڑے قصائیوں جیسی گالیاں تھوڑا ہی دیتے تھے۔ انھوں نے گالی کو ادب و شعر سے ترکیب دے کر ایسی خوش نما چیز بنا دیا تھا کہ اگر مرحوم کچھ دنوں اور زندہ رہتے تو ان کا شمار فنون لطیفہ میں ہونے لگتا۔‘‘

’’آغا مطالعے کے بڑے شوقین تھے، بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آگئی، کھڑے ہوگئے، اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستے میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیا تو اسے اٹھا لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا، بنیے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق پر پڑیاں باندھ کے دے دیں، یکایک آغا صاحب کی نظر پڑ گئی، نوکر سے پوچھ رہے ہیں، اس پڑیا میں کیا ہے؟ شکر۔۔۔۔ اچھا شکر کو ڈبے میں ڈالو، پڑیاں خالی کر کے لاؤ، اسے پھینک نہ دیجو، یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ آغا مناظرے کے میدان کے شیر تھے۔ جس محفل میں جا بیٹھتے سب پر چھا جاتے۔ باقاعدہ تعلیم تو واجبی سی تھی لیکن مطالعے نے انھیں کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا۔‘‘

آغا حشر نے بڑی عمر میں مختار بیگم سے شادی کر لی تھی جو فریدہ خانم کی بڑی بہن تھیں۔ وہ کہتے تھے بڑھاپے کا عشق بڑا کافر ہوتا ہے جس پہ مرتا ہے اسے مار رکھتا ہے۔ پتا نہیں کیوں اتنے طویل خاکے میں مختار بیگم کا ذکر تک نہیں۔

دوسرا خاکہ ہے شفا الملک حکیم فقیر محمد صاحب چشتی کا، جس کا عنوان ہے ’’شفا الملک‘‘۔ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

’’اصل میں ادیبوں اور شاعروں کے لیے یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ وہ بہت دبلے پتلے اور ہمیشہ کے روگی ہوں گے، اگرچہ پنجاب کے بعض ادیبوں نے بہت حد تک اس خیال کی تردید کردی ہے جن لوگوں نے صرف اسی قسم کے بعض پنجابی ادیب دیکھے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی اچھا ادیب گاماں پہلوان سے کیا کم ہوگا۔‘‘

’’ایک دن مطب میں بیٹھے تھے کہ ایک نازک اندام ہندو عورت آئی، اس کا دوپٹہ گوٹے سے لپا ہوا تھا۔ حکیم عبدالحمید خاں کے سامنے اور تو کچھ نہ کہہ سکتے تھے، اپنے ایک ہم درس کو جو دوائیں دے رہا تھا پکار کر کہا ’’خمیرہ گاؤ زبان پہ ورق نقرہ پیچیدہ۔‘‘

’’ایک دن آغا حشر اور حکیم صاحب آم کھا رہے تھے، آغا آم کھاتے جاتے اور اپنی عادت کے مطابق کہتے جاتے کہ بھئی حکیم صاحب بمبئی کے الفانسو کا جواب نہیں، لکھنؤ کا سفیدہ اس کے آگے کیا ہے؟ حکیم صاحب نے کہا جی ہاں، لیکن ہم تو بنارس کے لنگڑے پہ لٹو ہیں۔ آغا بھڑک گئے، بات یہ تھی کہ آغا مرحوم بنارس کے رہنے والے تھے اور ایک ٹانگ سے لنگڑے تھے۔ اس لیے لنگڑے کی پھبتی ان پہ ایسی بیٹھی جیسے انگشتری میں نگینہ بیٹھتا ہے۔‘‘

’’حکیم صاحب کے پاس ہر طرح کے مریض آتے تھے جن میں بعض نامی گرامی طوائفیں بھی تھیں، یہ لوگ ضلع جگت اور پھبتی میں طاق ہوتے ہیں، اس لیے کبھی کبھی ان سے نوک جھونک ہو جاتی تھی، ایک دفعہ ایک سیاہ فام طوائف علاج کرانے آئی، حکیم صاحب کی حاضر جوابی اور بذلہ سنجی اس نے سن رکھی تھی، اس لیے آتے ہی ان پر ایک دو پھبتیاں کہہ دیں، گرمی کے دن تھے اور اس نے جالی کا کرتا پہن رکھا تھا، جس سے اس کا سارا جسم جھلکتا نظر آتا تھا، حکیم صاحب اس کی باتیں سن کر بولے ’’آپ اپنی کہیے یہ باورچی خانہ میں سفیدی کیسی کرا رکھی ہے؟‘‘

دیوان سنگھ مفتون کے خاکے میں لکھتے ہیں:

’’دیوان سنگھ سکھ تو ضرور ہے لیکن مذہبی تعصب کی چھاؤں اس پر نہیں پڑی۔ اکالیوں سے اس کی ہمیشہ ٹھنی رہی ہے اور تارا سنگھ سے مقدمہ بازی بھی ہوتی رہتی ہے۔ شہید گنج کے جھگڑے میں اس نے مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا۔ خیر یہ تو پرانی باتیں ہیں، ڈاکٹر قریشی کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا کا حکم سنایا گیا تو دیوان سنگھ نے صاف لکھ دیا کہ بے چارہ ڈاکٹر بے گناہ ہے۔‘‘

مولانا ظفر علی خاں کے متعلق یہ تحریر دیکھیے:

حقہ پیتا ہے شعر کہتا ہے

اور عاشق میں کیا برائی ہے

یہ شعر دراصل مولانا ظفر علی خاں کے متعلق ہے۔ بات یہ ہے کہ مولانا حقہ کے بڑے رسیا ہیں، جب شعر کہتے ہیں تو حقہ ضرور پیتے ہیں اور جب حقہ پیتے ہیں تو شعر ضرور کہتے ہیں۔ ان کے شعر کہنے کا انداز یہ تھا کہ حقہ بھروا لیا اور شعر کہنے بیٹھ گئے۔ طبیعت کی روانی کا یہ حال کہ کبھی کبھی فی کش ایک شعر کے حساب سے کہتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی خود لکھتے ہیں کبھی کسی سے لکھوا لیتے ہیں۔‘‘

علامہ اقبال کے خاکے میں لکھتے ہیں: ’’ایک دفعہ بے تکلف احباب کی صحبت میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ چوہدری شباب الدین کا ذکر چھڑ گیا، کہنے لگے ’’ میں نے ایک بڑھیا دیکھی، جو اسٹیشن کی طرف جا رہی تھی، میں نے پوچھا ’’تو کون ہے؟‘‘ کہنے لگی ’’میں طاعون ہوں‘‘ میں نے کہا ’’تو بھاگ کے کہاں جا رہی تھی؟‘‘ کہنے لگی ’’میں شہر کی طرف جانا چاہتی تھی، لیکن وہاں شباب الدین پہلے سے موجود ہے، میری کیا ضرورت رہ گئی۔‘‘



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات