26 C
Lahore
Thursday, May 8, 2025
ہومغزہ لہو لہوورچوئل دنیا میں شناخت اور خودی کا تصور

ورچوئل دنیا میں شناخت اور خودی کا تصور


جب ہم انسانی شخصیت کی بات کرتے ہیں تو اس میں جسمانی، ذہنی، اور روحانی پہلو شامل ہوتے ہیں۔ تاہم اکیسویں صدی کی ڈیجیٹل دنیا، خاص طور پر میٹاورس، نے اس تصور کو ایک نئی جہت دی ہے۔

اب شناخت صرف جسم یا زمین سے بندھی نہیں رہی، بلکہ ایک ورچوئل وجود بھی تشکیل پاچکا ہے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر شخصیت کی بنیاد کیا ہے؟ کیا انسان صرف وہی ہے جو جسمانی دنیا میں نظر آتا ہے، یا وہ بھی ہے جو ڈیجیٹل دنیا میں تشکیل پاتا ہے؟

میٹاورس ایک ورچوئل، مشترکہ، اور اکثر متعامل (interactive) دنیا ہے جو انٹرنیٹ، ورچوئل رئیلٹی، اور آگمینٹڈ رئیلٹی پر مبنی ہے۔ یہاں افراد اپنا ایک ڈیجیٹل اوتار بنا کر مختلف سرگرمیوں میں شامل ہو سکتے ہیں، چاہے وہ تعلیم ہو، کاروبار، تفریح یا سماجی تعلقات۔

یہ دنیا جسمانی حدود سے آزاد ہے۔ ایک شخص جو حقیقت میں محدود وسائل یا جسمانی معذوری کا شکار ہو، وہ میٹاورس میں ایک طاقتور، آزاد، اور بامقصد شخصیت اختیار کرسکتا ہے۔ لیکن اس آزادی کے ساتھ کئی سوالات بھی جنم لیتے ہیں، خاص طور پر شناخت (Identity) اور خودی (Selfhood) کے حوالے سے۔

شناخت ایک شخص کی وہ پہچان ہے جو اس کے طرزِ زندگی، سوچ، زبان، لباس، تعلقات اور اقدار سے تشکیل پاتی ہے۔ لیکن میٹاورس میں شناخت کا مفہوم تبدیل ہوجاتا ہے۔ اب ایک فرد اپنے لیے کوئی بھی چہرہ، جنس، یا کردار اختیار کرسکتا ہے۔ وہ اپنے وجود کو اپنی مرضی سے تشکیل دے سکتا ہے، جس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شناخت حقیقی ہے؟

ورچوئل دنیا میں پرفارمیٹیو شناخت (performative identity) ابھر کر سامنے آتی ہے، جہاں فرد بار بار نئی شکلیں اختیار کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک سیال (fluid) شخصیت وجود میں آتی ہے جو روایتی سماجی شناخت سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ تغیر شخصیت کو مضبوط بناتا ہے یا بکھیر دیتا ہے؟ اگر ہر لمحہ شناخت بدل رہی ہو، تو کیا ایک مستقل ’’میں‘‘ باقی رہتی ہے؟

خودی ایک گہرا اور فلسفیانہ تصور ہے جو انسان کے اندرونی شعور، مقصدِ حیات، اور اخلاقی ارتقا سے جڑا ہوا ہے۔ علامہ اقبال نے خودی کو انسانی روح کی وہ آگہی قرار دیا جو فرد کو تقدیر بدلنے کی قوت عطا کرتی ہے۔

اقبال کے نزدیک خودی کی تکمیل قربانی، عشق، اور عمل سے ہوتی ہے، نہ کہ فرار یا مصنوعی آزادی سے۔ مگر میٹاورس کی دنیا میں فرد اپنے لیے ایک ایسا ماسک پہن لیتا ہے جو شاید وقتی طور پر آزادی کا احساس دے، لیکن طویل عرصے میں وہ اسے اپنی اصل سے جدا کر دیتا ہے۔

یہاں اقبال کی یہ بات بہت اہم ہے:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا، تیری رضا کیا ہے؟

یورپ میں خودی کا تصور فلسفہ، ادب اور نفسیات کے مختلف مکاتبِ فکر میں ایک بنیادی موضوع رہا ہے۔ رینے ڈیکارٹ (René Descartes) کا مشہور جملہ “I think, therefore I am” خودی کی شعوری بنیاد پر زور دیتا ہے۔ یعنی انسان کا شعور اس کی شناخت کا بنیادی ثبوت ہے۔ اسی طرح جان لاک نے خودی کو یادداشت اور مسلسل شعور سے جوڑا، جس کے مطابق انسان کی ذات اس کی ماضی کی یادوں اور ذاتی تجربات کا مجموعہ ہے۔ ان نظریات میں خودی کا تعلق فرد کی ذہنی حالت اور اس کی فکری آزادی سے ہے، جو ایک باخبر اور ذمے دار شخصیت کی تشکیل کرتا ہے۔

بعد ازاں، جرمن فلسفی فریڈرک نطشے (Nietzsche) نے خودی کو ایک تخلیقی اور انقلابی قوت کے طور پر پیش کیا۔ اس کے نزدیک انسان کو اپنی ’’اصل خودی‘‘ کو پہچاننے اور سماجی و اخلاقی روایات سے بلند ہو کر اپنی تقدیر خود بنانے کی جرات کرنی چاہیے۔ وہ خودی کو Übermensch یعنی ’’بالاتر انسان‘‘ کی طرف سفر قرار دیتا ہے۔ اسی تصور کا عکس فرانز کافکا کے افسانوں میں بھی دکھائی دیتا ہے، جہاں انسان اپنی ذات کی تلاش میں دنیا کے بے رحم نظام سے برسرپیکار ہے۔ یوں یورپ میں خودی صرف ایک ذاتی شعور ہی نہیں بلکہ ایک سماجی اور وجودی جدوجہد بھی ہے۔

ورچوئل دنیا میں خودی کی تعمیر ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ایک طرف تو یہ دنیا فرد کو خود کو نئے زاویوں سے سمجھنے کا موقع دیتی ہے، لیکن دوسری طرف اگر انسان ورچوئل شناخت میں گم ہو جائے تو اصل خودی دھندلا جاتی ہے۔

ورچوئل دنیا میں شناخت اور خودی کے درمیان ایک واضح کشمکش نظر آتی ہے۔ جہاں شناخت کو بدلنا آسان ہے، وہیں خودی کی تعمیر مسلسل غور، فکر، اور عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ ورچوئل دنیا میں انسان کو شناخت کا اختیار حاصل ہے، لیکن یہی اختیار بسا اوقات شخصیت کی جڑوں کو ہلا دیتا ہے۔ جب ایک فرد مختلف روپ دھارتا ہے، کبھی گیمز میں جنگجو، کبھی کاروباری سیمینارز میں ایک پروفیشنل، کبھی سوشل میڈیا پر جمالیاتی اوتار تو اس کی اصل شخصیت مختلف رخوں میں تقسیم ہونے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں فرد اپنی شناخت کے پیچھے چھپتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ خود کو دریافت کرے۔ شناخت کا یہ لچکدار پن وقتی طور پر آزادی دیتا ہے، مگر ایک مستقل ’’میں‘‘ کی تلاش کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

اس کے برعکس، خودی کی تعمیر ایک داخلی سفر ہے جو ظاہری تبدیلیوں کے بجائے باطنی ارتقاء کا تقاضا کرتی ہے۔ خودی نہ تو کسی ایپ سے بنتی ہے اور نہ کسی فلٹر سے چمکتی ہے؛ یہ عمل، احساس، اور فہم سے نمو پاتی ہے۔ میٹاورس میں جب شناخت لمحہ بہ لمحہ بدلے، تو خودی کی تعمیر کے لیے لازم ہے کہ فرد اپنی داخلی حقیقت سے جُڑے۔ اگر انسان صرف خارجی دنیا کے تقاضوں کے تحت خود کو ڈھالتا رہے تو وہ اپنی روحانی مرکزیت سے دور ہو جاتا ہے، اور شخصیت ایک بکھرے ہوئے وجود کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

میٹاورس میں شناخت اکثر باہر سے آنے والے اثرات (trends, filters, avatars) پر مبنی ہوتی ہے، جبکہ خودی اندر سے ابھرنے والا شعور ہے۔ اگر فرد اپنی شناخت کو بیرونی دنیا کے سانچے میں ڈھالتا رہے اور اندر کی خودی کو نظرانداز کرے، تو وہ شخصیت جو تعمیر ہونی چاہیے تھی، وہ بکھرنے لگتی ہے۔

نئی نسل کے لیے ایک نکتۂ فکر

آج کے نوجوان جب میٹاورس میں اپنی ورچوئل موجودگی بناتے ہیں، تو ان کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں:

1. وہ اپنی شناخت کو صرف ایک تفریح یا Escape کے طور پر استعمال کریں
2. یا وہ ورچوئل دنیا کو اپنی خودی کی تلاش اور شعور کی گہرائی تک پہنچنے کا ذریعہ بنائیں

یہاں تعلیمی اداروں، والدین، اور سماجی اداروں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ نوجوانوں کو ڈیجیٹل شعور (Digital Literacy) سے آراستہ کریں، تاکہ وہ ورچوئل دنیا کے اثرات کو سمجھ کر ایک متوازن شخصیت تشکیل دے سکیں۔

میٹاورس ایک انقلاب ہے، لیکن ہر انقلاب کے ساتھ ذمے داری بھی جڑی ہوتی ہے۔ انسان جب نئی دنیا میں داخل ہوتا ہے، تو اس کی شخصیت بھی نئے چیلنجز سے دوچار ہوتی ہے۔ شناخت کو تشکیل دینا اگرچہ آسان ہوا ہے، مگر خودی کی تلاش اب پہلے سے زیادہ ضروری اور مشکل ہو گئی ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم میٹاورس میں صرف نقاب پہنیں گے، یا اپنی خودی کا چہرہ بھی پہچانیں گے؟
 



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات