29 C
Lahore
Wednesday, May 7, 2025
ہومغزہ لہو لہونابینا ریچھ کو ظالمانہ قید سے نجات، عدالت کا محفوظ پناہ گاہ...

نابینا ریچھ کو ظالمانہ قید سے نجات، عدالت کا محفوظ پناہ گاہ منتقل کرنے کا حکم



لاہور:

لاہور ہائیکورٹ نے نایاب نسل کے 32 سالہ نابینا بھورے ریچھ کو بانسرہ گلی مری کے چڑیا گھر سے  اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے ریسکیو سینٹر میں منتقل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ فیصلہ جانوروں کے حقوق کے کارکن اور ماحولیاتی و قانونی مشیر، التمش سعید کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر سنایا گیا، جسے پاکستان میں قید جنگلی حیات کے لیے ایک بڑی قانونی اور اخلاقی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ ریچھ چھ سال قبل حافظ آباد میں ایک مداری سے بازیاب کروایا گیا تھا۔ بازیابی کے وقت اس کے ناخن کھینچے گئے تھے، دانت گر چکے تھے، اور بینائی مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی۔ بازیابی کے باوجود اسے غیر انسانی حالات میں قید رکھا گیا۔ پہلے لاہور چڑیا گھر اور پھر 2016 میں جلو پارک منتقل کیا گیا، مگر دونوں جگہوں پر اسے مناسب پناہ، ویٹرنری دیکھ بھال یا اس کی نوع کے مطابق ماحول میسر نہ تھا۔

التمش سعید نے بتایا چند ہفتے قبل  کمزور اور اذیت میں مبتلا اس ریچھ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس کے بعد سول سوسائٹی اور وکلاء میدان میں آئے۔ 8 اپریل 2025 کو ریچھ کو عجلت میں بانسرہ گلی، مری کے چڑیا گھر منتقل کیا گیا، لیکن وہاں اس کی حالت مزید ابتر ہو گئی جہاں اسے  تنگ اور چھوٹے کنکریٹ کے سیل میں قید کر دیا گیا، قدرتی ماحول سے مکمل طور پر محروم رکھا گیا۔

التمش سعید کے مطابق بھورے ریچھ کی اس غیرقانونی قید کیخلاف انہوں نے لاہور ہائیکورٹ سے  پبلک انٹرسٹ لٹیگیشن میں ریچھ کی مخصوص پناہ گاہ میں منتقلی کا مطالبہ کیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ میں 11، 23 اور 28 اپریل کو تین سماعتیں ہوئیں، جن میں چینگدو بیئر سنکچری چین کے ماہر ڈاکٹر فرنینڈو الیگرے کی شہادت بھی جمع کرائی گئی۔ 28 اپریل کو عدالت نے ریچھ کو ضلع چکوال میں واقع بلکسر بیئر سنکچری منتقل کرنے کا حکم دیا جو پاکستان میں صرف دو منظور شدہ پناہ گاہوں میں سے ایک ہے۔

پانچ مئی کو ہونیوالی سماعت میں ڈاکٹر فخر عباس، سربراہ پی آرسی اور پاکستان کے ممتاز ماہر جنگلی حیات، کی جانب سے تجاویز  جمع کرائی گئیں، عدالت نے فیصلہ دیا کہ اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے ریسکیو سینٹر میں منتقلی موزوں ہے، کیونکہ وہاں کا درجہ حرارت بہتر اور عملہ ماہر ہے۔ عدالت نے لاہور ہائیکورٹ کے زوار حسین کیس اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے مشہور “کاون کیس” کا حوالہ دیتے ہوئے جانوروں کو ذی شعور اور آئینی حقوق کا حامل تسلیم کیا۔

درخواست گزاروں نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صرف اس ایک ریچھ کی فلاح تک محدود نہ رہے بلکہ پنجاب بھر میں قید جنگلی جانوروں کے لیے مستقل پالیسی تشکیل دینے کا حکم دے۔ چونکہ پاکستان میں صرف دو سنکچریاں موجود ہیں، اس لیے درجنوں جانور غیر قانونی اور ظالمانہ حالات میں نجی چڑیا گھروں اور تفریحی پارکوں میں قید ہیں، جو نہ صرف پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ 1974 بلکہ آئینِ پاکستان میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق جیسا کہ زندگی، عزت، شفاف طریقہ کار اور انسانی سلوک کی بھی خلاف ورزی ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات