ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘ خاندان اٹھارہویں صدی سے طب سے وابستہ تھا‘ ڈاکٹر کارو نے اوساکا یونیورسٹی سے ڈگری لی‘ امریکا گئے‘ سرجری کی تربیت لی اور 1933 میں دریا موٹویاسو (Motoyasu) کے کنارے چھوٹا سا اسپتال بنالیا‘ اسپتال کا نام شیما ہاسپٹل تھا‘ 6 اگست 1945ء کو وہ ایک نرس کے ساتھ مریض دیکھنے ہیرو شیما سے باہر گئے ہوئے تھے‘ 6 اگست کی صبح سوا آٹھ بجے شیما ہاسپٹل کے اوپر 600 میٹر بلندی پر خوف ناک دھماکا ہوا‘ روشنی کا چھناکا ہوا اور ایک سیکنڈ میں دو کلو میٹر کے دائرے میں درجہ حرارت تین ہزار سینٹی گریڈ ہو گیا اور اگلے سیکنڈ میں وہاں موجود ہر چیز راکھ کی چھتری بن کر فضا پر چھا گئی۔
یہ منظر دور سے دیکھنے والوں کو مشروم (کھمبی) کی طرح محسوس ہوا‘ آدھ گھنٹے میں گرد بیٹھنا شروع ہوئی تو معلوم ہوا شیما اسپتال سمیت پورا ہیرو شیما شہر راکھ کا ڈھیر بن چکا ہے‘ 80 ہزار لوگ پہلے منٹ میں ہلاک ہو چکے ہیں اور تمام عمارتیں‘ پل‘ سڑکیں‘ ریلوے ٹریکس‘ گاڑیاں‘ جانور اور فیکٹریاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔
شیما اسپتال میں اس وقت 80 مریض اور طبی عملہ تھا‘ وہ تمام لوگ 8 بج کر 16 منٹ پرپگھل کر مٹی میں جذب ہو گئی جب کہ عمارت ریت‘ راکھ اور خون کاملغوبہ بن گئی‘ واقعہ کے دو گھنٹے بعد پتا چلا ہیروشیما میں جو لوگ مر گئے وہ خوش نصیب تھے‘ زندہ بچ جانے والے لوگ موت سے بدتر عذاب کا شکار ہو چکے ہیں‘ ان کا پورا جسم جل چکا ہے‘ ہڈیاں گل گئی ہیں‘ بینائی زائل ہو چکی ہے اور یہ قوت سماعت سے محروم ہو چکے ہیں۔
پورے شہر میں موت کو ترستے لوگوں کا ہجوم تھا‘ لوگ جلتے ہوئے زخموں کی شدت کم کرنے کے لیے دریا میں کود رہے تھے لیکن پانی تکلیف میں اضافہ کر رہا تھا‘ دوپہر تک دریا زخمیوں اور لاشوں سے بھر گیا‘ دریا کے پل پگھل کر زمین میں اوندھے پڑے تھے‘ بگھیوں کے گھوڑے اندھے اور زخمی ہو کر سڑکوں پر بگٹٹ دوڑ رہے تھے‘ عمارتیں زمین پربکھری پڑی تھیں‘ سڑکیں غائب تھیں اور سورج گرد میں چھپا ہوا تھا۔
دو کلو میٹر کے دائرے سے باہر موجود لوگ بھی زخمی تھے مگر ان کی تکلیف قابل برداشت تھی اور وہ ایک دوسرے سے مخاطب ہو کر پوچھ رہے تھے ’’کیا ہوا‘ کیا ہوا؟‘‘ لیکن کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ شام پانچ بجے امریکا نے دعویٰ کیا‘ ہم نے ہیروشیما پر انسانی تاریخ کا خوف ناک ترین ہتھیار ’’ایٹم بم‘‘ پھینک دیا ہے۔
یہ خبر ماتم بن کر جاپان پر گری اور لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے‘ ڈاکٹر کارو شیما اس دن مریض دیکھنے شہر سے باہر گیا ہوا تھا‘ شام کے وقت واپس آیا تو وہ شہر اور شہریوں کو دیکھ کر خون کے آنسو بہانے لگا‘ شیما اسپتال کا عملہ مریضوں سمیت ختم ہو چکا تھا‘ اگلے دن یعنی 7 اگست کو ڈاکٹر شیما کو اسپتال کی جگہ سے صرف ہڈیوں کا سرمہ اور ایک سرجیکل آلہ ملا‘ یہ سرجیکل آلہ آج بھی ہیروشیما کے میوزیم میں پڑا ہے۔
ڈاکٹر کاروشیما کا بیٹا اسپتال سے دورہونے کی وجہ سے بچ گیا جب کہ باقی پورا خاندان ایٹم بم کا لقمہ بن گیا‘ ڈاکٹر شیما نے 1948میں ٹھیک اسی جگہ دوبارہ اسپتال بنایا‘ اس کا بیٹا بھی ڈاکٹر بنا اور وہ والد کے بعد شیما اسپتال کا ڈائریکٹر رہا‘ امریکا‘ جاپان اور یورپ کے ماہرین نے 1969میں ڈکلیئر کیا دنیا کا پہلا ایٹم بم ٹھیک شیما اسپتال کے اوپر پھٹا تھا لہٰذا یہ ہیروشیما کا گراؤنڈ زیرو تھا۔
جاپانی قوم نے جنگ عظیم کے بعد چند برسوں میں ہیروشیما کی عمارتیں‘ سڑکیں اور پل دوبارہ بنا دیے‘ شیما اسپتال کی عمارت بھی نئی بن گئی‘شہر دوبارہ آباد بھی ہو گیا لیکن ایکسپو ہال کوانسانی عبرت کے لیے جوں کا توں چھوڑ دیا گیا۔
یہ عمارت ایکسپورٹ ایکسپو ہال تھی اور شیما اسپتال سے سو میٹر کے فاصلے پر تھی‘ 1915میں بنی لیکن ٹھیکے دار اتنے حلالی اور ایمان دار تھے کہ تعمیر کے 30سال بعد ایٹم بم کے حملے میں بھی عمارت کا اسٹرکچر محفوظ رہا‘ اس کے کالمز‘ گنبد‘ دیواریں اور لان کا فرش سلامت رہا۔
لہٰذا حکومت نے دنیا کو اپنا تعمیراتی معجزہ اور ایٹم بم کی تباہی دکھانے کے لیے یہ عمارت قائم رکھنے کا فیصلہ کیا اوریوں یہ عمارت آج پوری دنیا میں ایٹم بم کی تباہی کی علامت بن کر کھڑی ہے‘ آپ اگر شیما اسپتال سے ایکسپو ہال اوروہاں سے دائیں جانب دریا کی طرف مڑیں تو آپ ان سیڑھیوں تک پہنچ جائیں گے جن سے لوگوں نے ایٹمی حملے کے دن پانی میں کودنا شروع کیا تھا۔
میں جب وہاں گیا تو میں تھوڑی دیر کے لیے وہاں رک گیا تھا اور یہ سوچنے لگا تھا‘ ہم انسان کس قدر خوف ناک ہیں‘ ہم جب ظالم ہوتے ہیں تو پھر ہم خود کو بھی برباد کرنے سے باز نہیں آتے‘ دنیا میں آج بھی یہ سوال پوچھا جاتا ہے امریکا کو آخر ایٹم بم اور وہ بھی ہیروشیما اور ناگاساکی پرگرانے کی کیا ضرورت تھی؟
دنیا یقینا امریکا کو اس کا ذمے دار سمجھتی ہے جب کہ معاملہ بالکل مختلف تھا‘ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی زیادہ تر طاقتیں فوجی جرنیلوں اور شدت پسند وزیراعظم کے ہاتھوں میں تھیں اور یہ لوگ اندھا دھند فیصلے کر رہے تھے‘ امریکا خود کو جنگ سے بچا رہا تھا لیکن جرمنی نے برطانیہ میں امریکا کا مسافر بردار بحری جہاز اڑا دیا اور جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کر کے امریکا کے 188جنگی جہاز اور2300فوجی مار دیے اور یوں امریکا بھی جنگ میں کودنے پر مجبور ہو گیا
اور اس جنگ میں امریکا کے ساڑھے بارہ لاکھ فوجی ہلاک ہو ئے‘ صرف 1944 میں 88 ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوگئے‘ جنگ کی طوالت نے امریکا کو معاشی لحاظ سے بھی کم زور کر دیا تھا‘ فیکٹریاں بند تھیں‘ فوج میں جبری بھرتیوں کی وجہ سے کسان ختم ہو گئے تھے اور زرعی اجناس کی قلت پیدا ہو گئی۔
کساد بازاری بھی عام تھی اور امریکا میں بیماریاں بھی پھوٹ پڑیں چناں چہ امریکا بدترین دور میں داخل ہو گیا ‘ امریکی ماہرین کا خیال تھاجنگ اگر 1946 میں داخل ہو گئی تو امریکا میں قحط پھوٹ پڑے گا اور آدھی آبادی مر جائے گی لہٰذا امریکا ہر صورت 1945میں جنگ کا خاتمہ چاہتا تھا‘ ہٹلر نے 8 مئی 1945کو سرینڈر کر دیا جس کے بعد امریکا یورپ سے فارغ ہو گیا اور اس کی تمام تر توجہ جاپان پر مرکوز ہو گئی۔
مگر جاپان جنگ بندی کے لیے تیار نہیں تھا‘ امریکی سائنس دانوں نے اس دوران ایٹم بم بنا لیا اور جولائی 1945 میں برطانیہ اور امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرانے کا فیصلہ کر لیا‘ امریکا کے پاس اس وقت لٹل بوائے اور فیٹ مین کے نام سے دو قسم کے بم تھے‘ لٹل بوائے میں یورینیم تھی جب کہ فیٹ مین پلوٹونیم سے بنا تھا‘ جاپان کے قریب ٹنین (Tinian)کا جزیرہ امریکا کے قبضے میں تھا‘ امریکا نے جولائی میں اپنے بم ٹنین شفٹ کر دیے‘ بوئنگ کارپوریشن سے خصوصی جہاز بی 29 تیار کرایا اور جاپان کو 26 جولائی کو غیرمشروط سرینڈر کی آفرکر دی۔
امریکی جہازوں نے جاپان میں فضا سے وارننگ کے پمفلٹ بھی پھینکے لیکن جاپانی حکومت باز نہ آئی‘ ان کا خیال تھا یہ محض دھمکیاں ہیں اور ان کے پاس کوئی ایٹم بم نہیں جب کہ دوسری طرف امریکا نے جاپان کے چار شہر ہیروشیما‘ ناگاساکی‘ کوکورو اور نیگاٹا کو ٹارگٹ کر لیا‘ یہ بار بار وارننگ دیتا رہا مگر جاپان نہ مانا۔
اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملہ کیوں کیا گیا تھا؟ اس کی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ آبادی تھی‘ اتحادیوں کا خیال تھا جب بڑی تعداد میں جاپانیوں کے سویلین مریں گے تو ان کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا‘ دوسری وجہ فاصلہ تھا‘ امریکی جہاز ان شہروں پر حملہ کر کے آسانی سے واپس ٹنین جا سکتے تھے۔
چناں چہ 6 اگست 1945 کو صبح سوا آٹھ بجے ہیرو شیما پر پہلا ایٹم بم گرا دیا گیا ‘ اس حملے میں فوری طور پر 80 ہزار اور بعدازاں مزید 60 ہزار لوگ مرگئے‘ اب سوال یہ ہے امریکا نے تین دن بعد ناگاساکی پر بم کیوں گرایا؟ اس کی بھی دو وجوہات تھی‘ پہلی وجہ جاپان کا ردعمل تھا۔
جاپانی وزیراعظم کانتاروسوزوکی نے ہیروشیما کا انتقام لینے کا اعلان کر دیا‘د وسری وجہ امریکا یورینیم کے بعد پلوٹونیم کی تباہی کا مشاہدہ بھی کرنا چاہتا تھا لہٰذا 9 اگست 1945کو 11بج کردو منٹ پر ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا گیا اور وہاں 75 ہزارلوگ ہلاک ہو گئے‘ اس کے بعد کوکورا اور نیگاٹا کی باری تھی اورآخرمیں ٹوکیو پر حملہ ہونا تھا مگر اس سے پہلے شہنشاہ ہیروہیٹو نے غیرمشروط سرینڈر کا اعلان کر دیا اور یوں 15 اگست 1945کو جاپان کے سرینڈر کے بعد دوسری جنگ عظیم ختم ہو گئی مگر اس وقت تک انسانیت دم توڑ چکی تھی۔
میری درخواست ہے بھارت اور پاکستان کی قیادت کو ایک بار اکٹھے ہیروشیما کا وزٹ کرنا چاہیے شاید انھیں اس طرح شرم آ جائے اور یہ ہیروشیما اور ناگاساکی کا حشر دیکھ کر میز پر بیٹھ جائیں اور اپنے سارے مسئلے ایک ہی بار حل کر لیں ورنہ کبھی پلوامہ اور کبھی پہلگام اس پورے خطے کو راکھ کا ڈھیر بنا کر رہے گا‘ مذاکرات ہوں گے لیکن وہ تیس چالیس کروڑ لوگوں کی راکھ پر ہوں گے‘ کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟ ہمیں یہ فیصلہ بھی آج ہی کرنا ہوگا۔