مصنوعی ذہانت(اے آئی ) مشینوں کی وہ صلاحیت ہے ،جس کےذریعے وہ انسانی ذہانت کی نقالی کرتے ہوئے سیکھنے، سوچنے مسائل حل کرنے سے زبان کو سمجھنے اور نمونوں کو پہنچاننے میں بہت مدد ملتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ پیچیدہ انگورتھمز اور ماڈلز کے ذریعے کام کرتی ہے جو کمپیوٹر کی ڈیٹا کا تجزیہ کرنے، فیصلے کرنے اور وقت کے ساتھ بہتر کارکردگی دکھانے کےقابل بناتے ہیں۔
موجودہ دور میں اس کا ساستعمال شعبہ صحت، ذراعت،تعلیم، ٹرانسپورٹ اور ماحولیات جیسے کئی اہم شعبوں میں کیا جارہا ہے۔ اے آئی کے مختلف پروگرام عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لیےکئی طریقوں سے موزوں ترین ہیں وہ اِس کے ساتھ رازداری، روزگار کے مواقع د رستی اور خودکاری میں بہتری لاتا ہے۔
دوسرے کئی شعبہ جات میں اے آئی کے استعمال کے بعدا ب اِس کا استعمال حشرات کی دنیا میں بھی ایک اہم جزو کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اے آئی کا استعمال حشرات کے میدان میں ایک انقلابی تبدیلی کا ضامن ہے ،جس سے تحقیق کو حشرات کی شناحت، مطالعےاور انتظام کے طریقے جدید اور مؤثر انداز میں سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کا استعمال حشرات کی حیاتیاتی عوامل، زراعت میں کرادار اور حیاتیاتی اور ارتقائی تنوع حیاتیاتی تحفظ جیسے اہم شعبہ جات میں کیا جارہا ہے جن میں چیدہ چیدہ درج ذیل ہیں۔
حشرات کی درجہ بندی اور خودکار شناخت میں اے آئی ایک کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ حشرات کی classificationکرنے میں A-I عموماً تصویری پہنچان اور ڈیپ لرننگ ماڈلز کے ذریعے مدد فراہم کرتی ہے، جس کی مدد سے حشرات کی شناخت کو تیز اور درست بنایا جاسکتا ہے۔
اِس میں نیورل نیٹ ورکس تصاویر سے مورفواجیکل Morphological (ظاہری اشکال) خصوصیات کا تجزیہ کیا جاتا ہے، جس سے جنس یا نوع کی خودی اور صحیح شناخت ممکن ہوتی ہے یہ طریقہ عموماً حیاتیاتی تنوع کے مطالبات اور میوزیم کے ذخائر کے تجزیے میں بہت کار آمد ہے۔ A-I سے لیس سینسرز، اسمارٹ فون، اور ڈرنز کا استعمال، فصلوں اور جنگلات میں حشرات کی براہِ راست نگرانی میں بہت مؤثر ہے۔
یہ نظام نہ صرف حشرات کی موجودگی اور تعداد کی ریکارڈ کرنےمیں وقت فراہم کرتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات نوع کی سطح پر شناخت کو بھی ممکن بناتا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ نقصان دہ انواع کی بروقت شناخت کرواکر کنٹرول پلاننگ میں بروقت مددگارآلہ ثابت ہوتا ہے۔
اے آئی ماڈلز موسمی تغیرات نے سابقہ حشرات کے نقصانات اور ڈیٹا کا تجزیہ کر کے حشرات کے محلوں کے نقصانات کی پیشگی مشین گوئی کی سہولت فراہم کرتا ہے ۔یہ نظام کاشتکارو کو بروقت اور مؤثر اقدامات اٹھانے میں مدد دیتے ہیں، جس سے زہریلے کیمیکلز کے استعمال میں کمی اور ماحول دوست ذراعت کو فروغ ملتا ہے۔ آج کے دور میں اے آئی حشرات کی Bchavioral اور ماحولیاتی تجزیہ میں بھی بھرپور رہنمائی دیتی ہے۔ اے آئی مشین لرننگ انگورومز کی مدد سے حشرات کے پیچیدہ رویوں جسے تولید خوراک اور حرکت کے نمونوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ انواع میں باہمی تعلق، موسمی نقل مکانی کارجحان اور پولینیشن کے عمل کا جائزہ اور پولی نیشن میں حشرات کے کردار کو بھی اجاگر کرتاہے۔ اے آئی حشرات کی دنیا میں سالماتی تجزیہ میں بہت مؤثر ذریعہ تصور کیا جاتا ہے، جس کی مدد سے Genomic Sequencing) کا استعمال جینیاتی ترتیب جیسے ٹولز کی مدد سے حشرات کی ارتقائی درجہ بندی اور حیاتیاتی تنوع کو سمجھنا آسان ترین ہوگیا ہے۔
تاہم، اے آئی کی وسیع پروگرامنگ موجودہ وسیع معلومات حشرات کی کئی پیچیدگیوں کو حل کرنے میں مؤثر ہے ۔خاص کر جب انواع ظاہری طور پر ایک جیسے خدو خال کی حامل ہو جب کہ ارتقائی لحاظ سے مختلف ہوں اے آئی پر مبنی موبائل اپلیکشنز کے ذریعے عام عوام بھی حشرات کے متلق معلومات جمع کر کے تحقیقی کام میں انواع کے باہمی تضاد کے تجزیہ (Habitat) کی تبدیلی یاBreeding رویہ میں اتار و چڑھاؤ کو جانچنا جاسکتا ہے۔ اب اے آئی نے بڑا آسان بنادیا ہے یہ ڈیٹا حشرات کی کئی پیچیدگیوں کو سمجھانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اے آئی کا استعمال حشرات کی درجہ بندی کی روایتی طریقے سے ہٹا کر جدیدیت کی طرف گامزن کرنے کا سہرا بنتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
اے آئی کا یہ کلیدی کردار درجہ بندی کو جدید خطوط پر استعال کرنے میں بہت ہی مؤثر ثابت ہورہا ہے ،جس سے نہ صرف ٹائم بلکہ پیسے کی بھی بحث ہے اور کسی حد تک غلط درجہ بندی کے خوف میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔اے آئی ہزاروں حشرات کے نمونوں کو CNNکو نولیشنل نیورل نیٹ ورک (CNN) جو کہ دراصل اِ س ٹولز سے حشرات کی تصویر میں سے شناخت فصلوں پر ہونے والے حشرات کے نقصانات حیاتیاتی تبدیلیاں اور ماحول میں برپا پیچیدگیاں ایکس رے، اہم آر اے کا تجزیہ اور کئی دوسرے عوامل ظاہری خدوخال کی پہنچان میں بہت معاون ثابت ہورہی ہے۔ CNN کے ذریعے مشین لرننگ اور ڈیپ لرننگ ماڈلز خاص کرنو لیشنل نیوردل نیٹ ورکس پر تربیت دی جاتی ہے، تاکہ وہ جسمانی خصوصیات جیسے پروں کے نمونوں کے انٹینا کی ساخت (segments) جسم کی رنگت، ٹانگوں کی ساخت کی تصویری ڈیٹا کا تجزیہ کر کے جسمانی ساخت کے تناسب اور پیمائشوں کی مدد سے ارتقائی اور قریبی تعلق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ماڈلز کے ذریعے سے آئی رکھنے والے اقسام میں فرق کیا جاسکتا ہے اور ساتھ ساتھ DNA بارکوڈنگ کے ذریعے حشرات کی درجہ بندی کواور مؤثر اور آسان بنایا جاسکتا ہے اے آئی سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر وہ انواع جو کہ یکسانیت کا شکار ہیں۔
ظاہری طور پر ایک کی نوع کو پیش کرتی ہیں جب کہ ان کی DNA بار کوڈنگ جن کی دوسری انواع یا کسی علیحدہ کیٹیگری میں شامل کرتی ہے۔اے آئی اس پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے میں بڑی کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ اے آئی نے نہ صرف تحقیقی کام کو تیز درست اور صحیح سمت میں گامزن کیا ہے بلکہ حیاتیاتی مطالعات میں بھی ایک سنگ میل کی اہمیت رکھتا ہے۔اے آئی کا باقاعدہ استعمال دنیاکے تقریباًتمام ترقی یافتہ ممالک سے میں گذشتہ کئی سالوں سے زیر استعمال میں ہے۔
آج کل جدید ممالک میں اے آئی حشرات کی جدید درجہ بندی تحقیقی مقاصد اور زرعی نقصانات کی جانچ پڑتال کے لیے ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ اس ضامن میں امریکا میں اے آئی کو بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی ہے۔ جن میں Stanfood اورU SDA c MI T اور کئی دوسرے جامعاتی میں فصلوں پر حملہ کرنے والے حشرات کی نگرانی ڈرون سرویلنس اور اسمارٹ ایپلی کیشنز کے ذریعے وسیع پیمانے پر اپنا یا ہوا ہے۔
تاہم ،ٹڈی دل(locust) کے بروقت پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اِس کا استعمال اب کنٹرول پلاننگ ارتھارٹی کا لازمی جزو ہے۔ جرمنی میں جنگلات قدرتی ذخائر میں کسی کے ساتھ کئی مؤثر انواع کا کم ہونا یا پھر کئی خطرناک انواع کا اچانک سے بڑھ جانا یہ سب کچھ اے آئی سے مونیٹر کیا جاتا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ اب اے آئی کا استعمال موزیم میں موجود انواع کی مزید جدید خطوط پر استوار کرکے ان کی دوبارہ سے DNA بارکوڈنگ کی مدد سے شناخت کو ممکن بنایا جارہا ہے۔ اس زمین میں ہمارے کئی ہمسائے ممالک بھارت، بنگلا دیش، سری لنکا،ایران اور دیگر ممالک میں موبائل اپیس پر اے آئی ٹولز کو متعارف کروا کر حشرات کی شناخت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرح زرعی فصلوں پراے آئی درجہ بندی کے لیے روبوٹس کا استعمال بھی بہت مؤثر ہے۔ برازیل میں اے آئی جنگلات کے حیاتیاتی تنوع خاص کر برسات کے موسم میں گنا اور سویابین کی کاشت پر مختلف تجربات کر کےاُن کو بہتری کی طرف لایا جا رہا ہے۔
یوں دنیا کے مختلف خطہ جات بالخصوص اب اشیاء میں بھی اے آئی جیسی تیکنیک کے رجحان کو سمجھنے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ٹولز کی فصلوں پر حملہ کرنے والے حشرات کے اثرات اُن پر قابو پانے کیلئے جدید طریقہ کار اے آئی کی مدد سے تحقیق کا حصہ بنایا جارہاہے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ زراعت کے تحفظ اور حیاتیاتی تنوع کی نگرانی اورکامیاب مشاورت کے لیےاے آئی کے مختلف ماڈلز اب امریکا، یورپ، برطانیہ چین اور اوشناتا میں متعارف کروائے جارہے ۔جب کہ ایشیائی ممالک بھی اے آئی کے استعمال میں پیچھے نہیں ہیں ،اپنے محدود وسائل کو بروکار لاتے ہوئے۔
یہ اے آئی کے استعمال سے خود کو روشناس کروانے میں گامزن ہیں۔ تاہم، جہاں تک اے آئی کا استعمال اور پاکستان میں اِس کے رجحان پر بات کی جا ئے تو A-I میدان میں پاکستانی ترقی بھی قابل تحسین ہے اور کئی شعبہ جات میں اِس کا استعمال بڑی تیزی سے ہورہا ہے۔ حکومت پاکستان بھی اے آئی کو زندگی کے مختلف شعبہ جات میں متعارف َکروانے میں کوشاں ہے۔ مختلف جامعات اس کےاستعمال اور اِس میں ترتیب حاصل کرنے اور ترتیب فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی اقدام (برائے مصنوعی ذہانت) اور کمیوٹنگ پروگرام کےتحت (PIAIC ) جیسے منصوبے اِس کی ترقی میں ایک احسن قدم ہے۔
نیشنل سینٹر آف آرٹی فیشل انٹیلی جنس (PIAIC) بلاک چین اور کلاو میں انسانی وسائل کو بروئے کار لایاجا رہا ہے ۔یونیورسٹی آف سندھ میں بھی اے آئی ماہرین کی ٹیم کئی شعبہ جات میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے (BS) اے آئی پروگرام بھی متعارف کروایا جارہا ہے، تاکہ آنے والےنسلوں کو ؟؟؟سے بچایا جاسکے اور اے آئی کی مدد سے کئی پیچیدہ مسائل کو جدید اطوار پر حل کیا جائے۔اے آئی کے استعمال سے جاب اور ٹیکنالوجی میں جدّت پسندی کو فروغ ملے گا۔
مزید یہ کہ اسمارٹ ذراعت /قدرتی آفت کے حل پر مبنی پروگرام اے آیہ سے مرتب کیا جائے۔ یہ پہلو اب زیرغور ہے۔ تاہم،اے آئی کے فروغ بشمول پاکستان میں عوامی سطح پر کرنے کے لیے کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا بھی ہے، جس میں سرفہرست انفرا سٹریکچر تربیت فتہ افراد کی کمی اور مؤثر ڈیٹا کی پروسینگ کی ضرورت کے ساتھ ساتھ عوام الناس میں اس جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے فروغ کے لیے ان کی ذہنی ترتیب کا فقدان ہے۔
ان تمام مسائل کو حل کرنے کی فوری ضرورت ہے ،تاکہ اے آئی کے مثبت ثمرات سے معاشرے کے تمام مکاتب ِفکر تک رسائی ممکن ہوسکے اور مشین لرننگ نیورل نیٹ ورک نیچرل لینگویج پروسنگ اور کمپوٹر وژن میں طلباء کو مہارت فراہم کی جائے۔ اگر ان شعبہ جات میں طلباء ٹریننگ حاصل نہیں کریں گے تو وہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے اور ترقی کی دور میں بہت دور رہ جائے گا۔
اے آئی کا پروگرام نہ صرف نظریاتی علم فراہم کرتا ہے بلکہ عملی تجربات کے ذریعے انہیں حقیقی دنیا کے مسا ئل حل کرنے کی راہ بھی دکھلاتا ہے ۔مزید براں اے آئی کے ذریعے اسمارٹ ٹریس اور سینئرز کی مدد سے نقصان دہ کیڑوں کی تعداد میں اضافہ اور کون سی اقسام موجودہ ہیں ان کے خلاف بروقت اقدامات کے لئے کاشتکاروں / کسانوں کو بروقت اے آئی الرٹس سے پیغامات بھیجے جاتے ہیں، تا کہ وہ بروقت اپنی فصلوں حیاتیاتی طریقہ کار سے متبادل ذرائع استعمال کر کےنقصانات سے بچا جا سکے۔
اے آئی کے استعمال سے فصلوں کے تحفظ اور ماحول میں بہتری میں خاطرخواہ نتائج دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں کامیابی دنیا میں محفوظ انواع جو کہ ہزاروں سالوں سے میوزیم کی زینت ہیں اور یہ بیش بہا انواعِ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں کئی نادر و نایاب انواع حیاتیاتی تنوع ، ارتقائی عمل کو سمجھنے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تاہم، رسائی وسائل کا میسر نہ ہونا انواع کا دوردراز ممالک میں محفوظ ہونا۔
ماہرین حشرات اور دوسرے مقاریہ اور غیر مقاریہ جانداروں کی شناخت کے لئے اب مصنوعی ذہانت کا استعمال ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں ملنے والا ڈیٹا صرف صارفین کے کئی سوالات کے جوابات مہیا کرے گا بلکہ صدیوں سے موجودہ انواع کے درمیان جو خلا ہے وہ بھی پُر ہو جائے گا۔ دنیا کے کئی ممالک خاص کر جرمنی (برلن) میوزیم فیر نییر کنڈے برلن PEمیں تقریباً 30 ملین انواع موجودہ ہیں ان میں بڑی کامیابی کے ساتھ 250,000 سے زائد کیڑوں کے نمونوں کی ٹیگنگ ڈیٹا کو پڑھنے اور ترتیب دینے کے لئے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا، جس سے برلن کے میوزیم میں نہ صرف نمونوں کی شاخت آسان ہوگئی ہے بلکہ ان کے درمیان تعلقات کا تجزیہ بھی ممکن ہوا،جس کے ذریعے نہ صرف ماہرین حشرات بلکہ دوسرے وزیئرز بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ اس طرح سویڈن کے میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں آئے آئی کا استعمال کیا جارہا ہے۔
برطانیہ نیچرل ہسٹری میوزیم جہاں تقریباً 80 ملین انواع اس میوزیم کی زینت ہیں جو کہ اس کی شان کے اپنی ابتدائی بقاء کے ساتھ بڑھا رہی ہے۔ اب اے آئی کی دنیا اس میوزیم کو اور نئی جدیت کی طرف گامزن کر رہی ہے اب تک تقریباً 5000 آبی انواع کی پروسنگ مکمل کر چکی ہیں۔ تاہم، باقی انواع پر کام جاری ہے۔ یونیورسٹی آف سندھ جامشورو میں آرتھوپیڈ ((Orthoptera کے 30000 سے زائد نمونے موجود ہیں جن میں دیگر حشرات کے گروپ شامل نہیں فی الحال آرتھو پیڈا کی انواع جو کہ تقربیا 504 کےلگ بھگ ہیں ان کی درست شناخت DNA بار کوڈ نگ اور اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے جلد شروع کی جانے لگے گی۔
اے آئی ٹیکنالوجی کس طرح حشرات کی درجہ بندی ،شناخت اور تحفظ میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔یہ تمام مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ دنیا میں اے آئی کا استعمال سائنسی تحقیق میں بہت سودمند ہے۔ تاہم، اگر حشرات کے تصاویر واضح نہ ہوں ۔اے آئی بہتر نتائج مرتب نہیں کرسکے گی۔ اس طرح حشرات کا کئ حصّہ غائب ہو یا وہ نایاب یا کوئی نئی دریافت ہو جو کہ Data Base میں شامل نہ ہو۔ اس وقت اے آئی کے درست نتائج ملنا مشکل ہوجاتے ہیں ،تاکہ ان مسائل کو مکمل حل کرنے کیلئے ماہرین حشرات کی خدمات دستیاب ہونی چاہیے۔
اس طرح اگر دو انواع کے خدوخال ملتے ہوں۔ اور ڈیٹا بیس میں محدود معلومات ہوتو اس صورت میں بھی آپ کو کچھ مشکلات کا سامناہو سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کسی بھی زمانے میں آسانی پیدا کرنے کا نام ہے۔ تاہم، اس کا منفی استعمال نہ صرف۔ اِس کی افادیت کو کم کرے گا بلکہ آپ کا بنیادی مقصد جس کے تحت آپ نے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا ضروری سمجھا،اُس کے مقصد کو بھی فیل کردے گا۔ تو ذہن میں رکھیں کہ اے آئی کو بھی آپ انہیں ریسرچ میں ایک Assistent ٹولز کے طور پر استعمال کریں۔
پاکستان میں A-I کا مستقل بہت تابناک ہے ہماری آنے والی نسلوں کیلئے ہمیں ابھی سے ان تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ بنیادی Data Base مرتب کرنی ہوگی جو کہ آنے والے وقتوں میں ان کو جدید علوم سے ہم کنار کرسکے۔ مزید یہ کہ A-I ایک ایک لازمی جز ہے۔ اسکی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے A-I سے حاصل کردہ ڈیٹا ہماری آنے والی نسلوں کیلئے انتہائی مفید ثابت ہوگا کیونکہ یہ نہ صرف انواع کی درست اور تیز شناخت میں مدد دے گا بلکہ حیاتیاتی تنوع کے ریکارڈ کو محفوظ رکھنے تعلیمی مقاصد کیلئے ڈیجیٹل ذخائر بنانے ، ماحولیاتی تبدیلیوں کی نگرانی اور مؤثر تحفظاتی منصوبہ بندی میں بھی معاون ثابت ہوگا اِس ٹیکنالوجی کی مدد سے آنے والی نسلیں نہ صرف سیکھ سکیں گی بلکہ قدرتی وسائل کو بہتر انداز میں محفوظ بھی رکھ سکیں گی۔