یہ جو بچہ اینٹوں کے بھٹے پرکام کر رہا ہے،کوئی ہوٹل میں پیالیاں دھو رہا ہے۔ ایک معمر مزدور جس نے ساری زندگی سیمنٹ، بجری، بلاک، اینٹوں سے دوستی رکھی۔ بڑھاپا اس کا کیسا گزرتا ہے؟ عورت مزدور ہوگھر میں کام کرے یا کھیتوں میں، پہلے صبح ناشتہ تیار کرے گی، پھر کھیتوں میں کام کرے گی۔ شام کو شوہر کے طعنے سنے گی، بس اسی میں اس کی زندگی گزر جاتی ہے۔
کتنے ہی یوم مئی گزر جائیں چھٹی اس کے مقدر میں نہیں۔ چھوٹی بچیاں جو گھروں میں کام کرتی ہیں مالک کی مار بھی برداشت کرتی ہیں انھیں اپنے حقوق کا پتا ہی نہیں۔ ان کو کیا اجرت ملتی ہے، کھانا اور چند ہزار ماہانہ۔ وہ بچے مزدور جو کہتے ہیں ہم کام سیکھ رہے ہیں، انھیں ایک وقت کی روٹی اور بیس تیس روپے دیہاڑی ملتی ہے لیکن یوم مزدور پر چھٹی پھر بھی نہیں۔
یہ مزدور چھوٹا ہو یا بڑا نوجوان ہو یا بوڑھا، چھوٹی بچی ہو یا عورت، سب ایک ہی چکی میں پس رہے ہیں۔ بچوں کو تنخواہ ملتی نہیں، عورتوں کو مردوں کی نسبت آدھی تنخواہ، چھوٹی بچیاں دن رات بنگلے پرکام کرتی ہیں، بچا کچھا جھوٹا کھا لیا کرتی ہیں اور مہینے بعد بوڑھے والدین ملنے آئیں تو ان کے ہاتھ پر مالکن کچھ روپے رکھ دیتی ہیں۔ وہ خوشامدانہ لہجے میں کہتے ہیں آپ کی بڑی مہربانی بیگم صاحبہ !
یوم مئی کے موقع پر دنیا بھر کے مزدور چھٹی کرتے ہیں، ہر ادارہ اس دن کی تنخواہ ان کو دیتا ہے، لیکن پاکستان میں اس طرح کے افراد کے لیے چھٹی کا مطلب ایک دو وقت کی روٹی بھی گئی۔ اس دن فاقہ ہی فاقہ، پھر بھلا ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ننھا مزدور،گھروں میں کام کرنے والی بچی، یہ سب یوم مئی کی چھٹی کا نام بھی نہیں لیں گے۔ اکثریت ایسی ہے جو اس دن کے بارے میں تو نہیں جانتے لیکن چھٹی کا مطلب خوب جانتے ہیں کہ دیہاڑی جو ملتی ہے تو اس سے گئے۔ کھانا ملتا ہے تو اس سے بھی گئے۔ چھٹی کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ مار پیٹ کے سوا کچھ نہیں ملتا تو آخر چھٹی کا عذاب کیوں جھیلیں۔
پاکستان میں 40 فی صد مزدور غیر رسمی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ جہاں نہ کوئی سوشل سیکیورٹی نہ کوئی انشورنس نہ ہی دن بھر کی چھٹی یا آدھی چھٹی۔ اگر ایسا کسی نے کیا تو اس کی پوری چھٹی۔ نیا بندہ فوراً مل جاتا ہے کیونکہ ملک میں غیر ہنرمند چھوٹے بڑے مرد و زن مزدوروں کی کمی نہیں۔
چند ہفتوں کے بعد بجٹ نے آنا ہے خوب دھوم مچا کر حکومت ان غریب مزدوروں کے غم میں ہلکان ہونے کا بیانیہ داغ دے گی۔ پچھلے سال 37,000 روپے کم ازکم اجرت مقررکی گئی، اس مرتبہ اسے بڑھا کر 40 ہزار روپے کر دیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے مزدوروں کی تنخواہ 12 سے16 ہزار روپے تک ہی عموماً ملتے دیکھا گیا ہے اور یوم مئی کا مطلب کہیں جلوس، ریلی، نغمے بس اسی میں یوم مزدور گزر جاتا ہے اور کام کرنے والے مزدور کام ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔
ہمارا ملک افرادی قوت کے لحاظ سے دنیا کی نویں بڑی افرادی قوت والا ملک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زراعت میں 43 فی صد طبقہ مزدوری کرتا ہے جو موسمی ہوتا ہے۔ وقت کی قید سے آزاد، صبح سے رات تک کام ہی کام، نہ کہیں چھاؤں، نہ کہیں آرام، بس کام اور کام۔ صنعتی شعبے میں 20 فی صد مزدور کام کرتے ہیں، ان میں چھوٹی بڑی گھریلو صنعتیں سب شامل ہیں۔ خدمات کے شعبے میں 36 فی صد افرادی قوت کام کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر مزدور غیر رسمی شعبے میں کام کرتے ہیں۔ 2017-18 کے اعداد و شمار کے مطابق 36 لاکھ خواتین گھریلو کاموں میں کام یا نوکری کرتی ہیں۔
ملک میں اکثریت ایسے مزدوروں کی ہے جو ان پڑھ ہے یا انتہائی معمولی پڑھی لکھی خواتین یا مرد ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے حقوق کی بالکل خبر نہیں ہوتی۔ چونکہ ان کے والدین یا شوہر انتہائی غریب ہوتے ہیں لہٰذا غربت انھیں محنت مزدوری پر مجبور کردیتی ہے۔
ان کی حالت زار کو بہتر بنانے خاص طور پر ننھے بچوں یا اٹھارہ سال سے کم عمر بچے یا بچیوں کے لیے غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والوں کی بہتری کے لیے جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ قانونی اصلاحات کی جائیں، سماجی تحفظ اور دیگر تمام ایسے اقدامات اٹھائے جائیں، ملکی قانون کو مضبوط بنایا جائے، انھیں شعور دیا جائے، ان کی تنخواہیں اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے قوانین بنائے جائیں، پھر کہیں جا کر صنعتی ممالک کی طرح یہ بھی یکم مئی کو یوم مزدور کے موقع پر چھٹی کریں گے۔ لیبر ڈے منائیں گے، ورنہ یوم مئی ان کے لیے چھٹی کا دن، مزدوروں کے حقوق کا دن ہے یہ تصور پوشیدہ ہی رہے گا۔ اسلام آباد کی لیبر کانفرنس کے نکات پر بھی عملدرآمد کیا جائے تاکہ مزدوروں کے حالات کار بہتر ہو سکیں۔